سورة الزخرف - آیت 61

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور بلاشبہ وہ (عیسی) قیامت کی ایک علامت ہے تو تم اس قیامت کے وقوع میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے (٦)۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت مسیح کی دوبارہ آمد (ف 1) اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت مسیح قریب قیامت میں تشریف لائیں گے اور ان کی یہ تشریف آوری قیامت کی شروط میں سے ہے ۔ اس لئے تم لوگ اس میں مطلقاً شک نہ کرو یہی صراط مستقیم ہے ۔ اور یاد رکھو کہ شیطان عقل وخرد تم کو اس عقیدے سے باز رکھنے کی کوشش کریگا اور کہے گا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ حضرت مسیح دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں ۔ اور قیامت کے علائم میں سے ہوں تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور اس کی باتیں محض تمہیں گمراہ کرنے کے لئے ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہ کرو ۔ یہ واضح رہے کہ جن لوگوں کی نظریں اس وقت یورپ والوں پر ہیں ۔ اور یہ محسوس کررہے ہیں کہ اس وقت امن عالم کے لئے انکا وجود زبردست خطرہ ہے اور یہی لوگ ہیں جو مادیت سے مسلح ہوکر مذہب کے قلعوں پر حملہ آور ہیں ۔ اور آج ان کی وجہ سے روحانیت کے تمام نظرئیے پامال ہورہے ہیں ۔ ان کے نزدیک ضرورت ہے حضرت مسیح کی جو دنیا میں آکر اپنی است کے ان لوگوں کو بتلائیں کہ حرص وآز کی تکمیل اور جسم وقالب کی آرائش وتزئین ہی منتہائے کمال نہیں ۔ وہ آئین اور تمدن کے اس ہلاکت آفرین پہلو کو یک قلم بدل دیں ۔ اور یورپ کو روحانیت سے معمور کردیں ۔ آج یہ سفید فام قومیں گمراہی میں اتنی دور نکل گئی ہیں کہ ان کو پھر سے واپس لانا عام انسانوں کے بس میں نہیں ہے حالات کا تقاضا اور زمانے کے داعیات یہ ہیں کہ کوئی زبردست روحانی شخصیت مبعوث ہو اور وہ دنیا میں ایک زبردست انقلاب پیدا کردے ۔ جس کی وجہ سے انسانیت اپنی کھوئی ہوئی سعادتوں کو دوبارہ حاصل کرلے ۔