فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ
کیوں نہ اس کی طرف سونے کے کنگن ڈالے گئے یا اس کے جلو میں فرشتے جمع ہوکرآتے؟ (٤)۔
ف 1: اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں ۔ اور نہ یہ اتنا روحانیت میں بلندپرداز اور خدا کے ہاں مقبول ہے ۔ کہ اس کے آگے پیچھے فرشتے کھڑے نظر آتے ہوں ۔ قوم نے فرعون کے اس طرز استدلال کی تائید کی ۔ اور موسیٰ کی تعلیمات سے انکار کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ باوصف اس نے سروسامانی دنیا کے حضرت موسیٰ کو سارے بنی اسرائیل کا قائد قرار دیا گیا ۔ اور اس کی زندگی کو ان کے لائق متبع اور اطاعت بنایا گیا ۔ اور یہ فرعون اپنی مغرور قوم سمیت دریا میں غرق ہوگیا ۔ آج وہ موسیٰ بنی اسرائیل کی شکل میں اور اپنی تعلیمات کی شکل میں زندہ ہے ۔ جو دنیوی وجاہتوں سے محروم تھا ۔ اور وہ فرعون جس کے سونے کے کنگن تھے ۔ جو شاندار محلوں میں رہتا تھا ۔ مردہ ہے *۔ لایکادیبین سے مراد یا تو یہ ہے ۔ کہ موسیٰ اپنے دعادی کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ۔ اور یہ نہیں بتلاتا ۔ کہ آخر اس کی غرض وغابت کیا ہے ؟ کیا وہ مصر کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ؟ قیادت وسیادت کا خواہاں ہے یا مال ودولت کا طالب ہے ؟ اور کیا نبی اسرائیل کا روحانی مقتدا بننا چاہتا ہے ۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ بچپن کے زمانے میں ہکلاتے تھے ۔ تو اس کو یہ خیال ہوا ۔ کہ شاید اب تک ان میں یہ مرض موجود ہے ۔ حالانکہ انہوں نے اللہ سے دعا مانگی تھی ۔ واحلل عقدۃ من نسانی کہ اے اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے اور اللہ نے فرمایا تھا قد اوتیت سولک یا موسیٰ اے موسیٰ تیری دعا قبول ہے ۔ کیونکہ منصب نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ فصاحت لسانی سے بہرہ وافر حاصل ہو ۔ اور پیغمبر اپنے زمانے کا بہترین خطیب ہو *۔