وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
اور کتنے سارے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ ملکر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ! نتیجتا انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا، اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
تلقین عزیمت : (ف1) جب غزوہ احد میں بھاگڑ مچی اور عبداللہ ابن قیمہ نے یہ مشہور کردیا کہ رسالت مآب (ﷺ) شہید ہوگئے ہیں تو بعض مسلمان ہمتیں ہار بیٹھے اور جم کر نہ لڑ سکے ، حضور (ﷺ) نے فرمایا ” الی عباداللہ “ کہ خدا کے بندو ادھر آؤ ، لوگ حضور کے گردا گرد جمع ہوگئے ، آپ (ﷺ) نے پوچھا کہ یہ تمہیں کیا ہوگیا جو تم بھاگ کھڑے ہوئے ؟ انہوں نے کہا ، ہم نے جب سنا کہ آپ (ﷺ) ہم میں نہیں رہے تو ہم گھبرا گئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ محمد (ﷺ) کی حیثیت ایک پیغمبر سے زائد نہیں ، اس سے پہلے بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں ، ہوسکتا ہے آپ اس دنیا کو چھوڑ جائیں ، کیا اس صورت میں تم دین مستقیم کو چھوڑ دو گے ؟ دوسرے لفظوں میں بتانا یہ مقصود تھا کہ انبیاء علیہم السلام ایک خاص مشن کی تکمیل کے لئے تشریف لاتے ہیں اور جب وہ تکمیل پذیر ہو چکتا ہے ‘ رفیق اعلی سے جاملتے ہیں ، یہ قطعا ضروری نہیں ہے کہ وہ قیامت تک امت میں زندہ رہیں اور امت کو راہ راست پر لاتے رہیں ، بلکہ ہر نبی کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر عام انسانوں کی طرح قفس عنصری کو چھوڑ جاتے ہیں ، اس لئے یہ عذر قرین دانش نہیں کہ چونکہ پیغمبر ہم میں نہیں ‘ اس لئے دین چھوڑ دیا جائے یا ان کی حمایت چھوڑ دی جائے چنانچہ حضرت انس بن نضر (رض) اس نکتہ کو بھانپ لئے ، جب لوگ بھاگ رہے تھے اس وقت انہوں نے للکار کر کہا کہ اے قوم آؤ ۔ حضور (ﷺ) کے بعد جی کر کیا کرو گے ؟ اگر وہ فوت ہوگئے تو ان کا خدا تو زندہ ہے ہم اس کی محبت میں مر جائیں ، یہ آپ (ﷺ) کے بعد زندہ رہنے کی ذلت سے زیادہ موزوں ہے ، تقریبا اسی قسم کے جرأت آموز الفاظ صدیق اکبر (رض) کے تھے ، جب حضور (ﷺ) کا انتقال ہوا ۔ آپ (رض) نے یہی آیت صحابہ (رض) عنہم اجمعین کے سامنے پیش کی اور بتایا کہ یہ خدا کا زبردست قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے ، وہ ضرور ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنے پر مجبور ہوگا ۔ یہ آیت کا سلیس اور صحیح مطلب ہے بعض لوگوں نے خواہ مخواہ اسے وفات مسیح (علیہ السلام) پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ، آیت مذکورہ صرف اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آپ (ﷺ) سے پہلے بھی انبیاء ہو گزرے ہیں وہ بھی انسان تھے اور انسانی حوادث سے ہو کر گزرے ہیں ، اس لئے حضرت محمد (ﷺ) بھی اوروں سے الگ حقیقت نہیں رکھتے ۔ اس آیت میں مسیح (علیہ السلام) کا کہیں ذکر نہیں ، البتہ عموم ہے ، کلیت واستغراق نہیں اور دوسرے مواضح پر جہاں ان کا نام ہے ، وضاحت سے حیات مسیح (علیہ السلام) کا ثبوت ملتا ہے ، منطقی طور پر مخصوص ومتعین دعوی کے لئے ومتعین دلائل ضروری ہیں ، مگر ہمارے مخالفین ہمیشہ خطابیات سے کام لیتے ہیں ۔