فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان کی وسوہ اندازی نے ان دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسی کچھ (راحت و سکون کی) زندگی بسر کر رہے تھے اسے نکلنا پڑا۔ خدا کا حکم ہوا "یہاں سے نکل جاؤ۔ تم میں سے ہر وجود دوسرے کا دشمن ہے" اب تمہیں (جنت کی جگہ) زمین میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک کے لیے (جو علم الٰہی میں مقرر ہوچکا ہے) اس سے فائدہ اٹھانا ہے
گناہ عارضی ہے : (ف2) آدم (علیہ السلام) اجتہادی لغزش کی بنا پر جنت سے الگ کردیئے گئے اور انہیں کہہ دیا گیا کہ تم میں اور شیطان میں باہمی عداوت ہے ، اس لئے کچھ مدت تک زمین پر رہو ، وہاں دونوں کا صحیح طور پر مقابلہ رہے گا ، پھر اگر تم وہاں اس کی گرفت سے بچ گئے تو اس اصلی وحقیقی مقام میں آجاؤ گے ، ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو شیطان کا ہوا ہے ۔ آدم (علیہ السلام) کو عارضی طور پر اس لئے بھی زمین پر اتارا گیا ، تاکہ وہ شیطان کی تمام گھاتوں سے واقف ہوجائے اور پھر کبھی اس کی گرفت میں نہ آئے اور مقابلہ سے اس میں روحانیت کی ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے جو اس کو بارگاہ قدس کے قریب ہونے کے لائق بنا دے ، یہ سزا نہ تھی ، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ علاج تھا آدم (علیہ السلام) کی بشری وفطری کمزوریوں کا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی درخواست پر انہیں معاف کردیا ، لیکن پھر بھی انہیں مقررہ وقت سے پہلے جنت میں جانے کی اجازت نہیں دی ۔ توبہ کی قبولیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ بالکل عارضی اور غیر مستقل کیفیت کا نام ہے ، رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف بجائے خود بخشش کی ضمانت ہے ﴿إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ﴾قرآن حکیم کا اعلان عام ہے کہ گناہوں سے لدے ہوئے انسان اس کے عتبہ جلال پر جب بوسہ دیتے ہیں تو وہ ان کے تمام گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ﴿إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ کا استثناء قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ گناہ انسانی سرشت کا جزو لاینفک نہیں ‘ بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے جو ندامت کے آنسوؤں سے زائل ہو سکتی ہے ۔ حل لغات: عَدُوٌّ: دشمن ، مخالف ، مستقر : ٹھکانا ، جائے استقرار ،