سورة الزخرف - آیت 19

وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اورانہوں نے فرشتوں کو جوخدائے رحمن کے بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا ہے کیا ان کی خلق کے وقت یہ حاضر تھے ؟ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے جواب دہی کی جائے گی

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قدامت پرستی ف 1: مکہ والوں میں ایک بہت بڑا نقص یہ تھا کہ ان میں جمود تقلید کا مرض عام ہوچکا تھا ۔ اس سے غوروفکر کی تمام صلاحتیں چھن چکی تھیں ۔ ان کے ذہن مفلوج تھے اور ان کے سامنے اسلام کے حقائق لامعہ پیش کئے گئے ۔ تو انہیں محض اس لئے مان لینے میں قائل ہوا کہ ان کے آبائی علم ان کی تائید تمہیں کرتے تھے ۔ کہ ہم تو باپ دادا کے مسلک پر قائم رہینگے ۔ اور قطعاً یہ جرات نہیں کرینگے ۔ کہ ان آگے بڑھنے کی کوشش کرینگے گویا ان کے نزدیک یہ کا برحق وصداقت کا مجموعہ تھے ۔ اور ذہنی وفکری ارتقاء کا ایسا کامل نمونہ تھے کہ ان کی مخالفت عقل وخرد کی مخالفت کرنا تھا ۔ ان کے سامنے ہزار دلائل پیش کئے جاتے ۔ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ۔ معجزات خوارق دکھائے جاتے مگر وہ یہی کہے جاتے ۔ کہ یہ سب کچھ درست ہے کہ ہم کیا کریں ۔ کہ ہمارے اجداد ان باتوں کے قائل نہیں تھے ۔ حالانکہ محض قدامت پرستی کوئی معقول دلیل نہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس اس بات کی دلیل ہے ۔ کہ اس کو ٹھکرادیا جائے ۔ اور بہتر قسم کی زندگی اختیار کی جائے ۔ یا بیش قیمت اجزا سے مرکب غذا یقینا پھینک دیا جاتا ہے ۔ جب کپڑا گہنہ اور اور بیگانہ ہوجائے ۔ تو اسے ایسی سیدردی سے اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور قطعاً خیال نہیں کیا جاتا ۔ کہ کتنے دنوں اس لباس نے ہمارا ساتھ دیا ہے ۔ اسی طرح کہنہ اور بوسید خیالات ناکارہ اور متعفن ہوجاتے ہیں ۔ تو چونکہ یہ ذہن کو خوراک اور لباس ہوتے ہیں ۔ اس لئے جس قدر جلدی ہوسکے ان سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے ۔ اور نئے اور تازہ افکار کو قبول کرلینا چاہیے ۔ ہاں یہ درست ہے کہ صداقت کبھی کہنہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صادقت کا ظن کہنہ ہونے پر اور نکھرتا ہے ۔ اس لئے اصل معیار کسی چیز کا پرانا اور نیا ہونا نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی مقبولیت پر ہے *۔