وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
اور تم تو خود موت کا سامنا کرنے سے پہلے ( شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ (٤٧) چنانچہ اب تم نے کھلی آنکھوں اسے دیکھ لیا ہے۔
گمان باطل : (ف1) اسلام قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام باطل قوتوں کے ساتھ جنگ چھڑ جائے ، اس لئے کہ جو شخص حق نواز ہوگا ‘ ضرور ہے کہ طاغوت کا دشمن ہو ، شیطان کی دوستی اور اسلام یہ دو مختلف چیزیں ہیں جو کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں اس لئے جو مومن ہے اور جس کا نصب العین جنت کا حصول ہے ، وہ اس گمان باطل میں نہ مبتلا رہے کہ بغیر جہاد کئے اور مصیبتیں جھیلے خدا کی رضا کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ان آیات میں مسلمانوں کی عام جماعت کو مخاطب کیا ہے کہ تم غزوہ احد سے پہلے شوق شہادت میں بےچین تھے ، اب تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیوں نہیں اٹھ کر اپنی عزیمیت وقوت کا ثبوت دیتے اور کیوں ثابت نہیں کردیتے کہ ہم جنت کے وارث ومستحق ہیں ۔ ﴿وَلَمَّا يَعْلَمِ﴾ سے مراد یہ ہے کہ مجاہدین وصابرین کا گروہ متمیز طور پر الگ ہوجائے اور واضح طور پر الگ ہوجائے کون خدا کی راہ میں جان دیتا ہے اور کون ہے جو جی چراتا ہے ، نہ یہ کہ خدا جان لے اس لئے کہ اس کے علم میں واقعات وحوادث سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اس کا علم ہمیشہ سے کامل اور ہمہ گیر ہے ۔