وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ
جوبڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو (خطاؤں سے) درگزر کرتے ہیں۔
آیت 37 تا 43: حل لغات :۔ الفواحش ۔ جمع معشہ برائیاں * استجابوا ۔ یعنی انہوں نے اللہ کی رضا کو بہرآئینہ مقدم جانا اور ہر حکم کو رضاکارانہ تسلیم کرلینے کا عہد *۔ حل لغات :۔ انتصر ۔ بدلہ اور انتقام لیا ۔ انتصار سے ہے *۔ اہل عقبے ف 1: ان آیتوں میں ان لوگوں کی صفات کا تذکرہ ہے ۔ جن کیلئے عاقبت کی زندگی ہے ۔ اور جو آخرت میں روحانی سعادتوں سے بہرہ مند ہونگے ۔ فرمایا : کہ یہ وہ لوگ ہیں ۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور مصائب وشدائد میں اس پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ اور سراسر پاکباز ہیں ۔ وہ کوشش کرتے ہیں ۔ کہ ان کا دامن کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو ۔ ان میں یہ صلاحیت اور قوت برداشت ہوتی ہے ۔ کہ جب جذبات میں اشتعال پیدا ہو ۔ غصہ اور غضب رونما ہو ۔ تو اس وقت وہ اپنے خطم اور مخالف کو معاف کردیں ۔ جو لوگ اللہ کے حکم کے تابع ہیں ۔ ہر ابتلاء کو جو اس کی طرف سے ہو ۔ خندہ پیشانی زبردشت کریں ۔ اور نماز کو اس کی تمام شروط ظاہری وباطنی کے ساتھ ادا کریں ۔ پابندی وقت کیساتھ پڑھیں ۔ معنے اور مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور مقام احسان کو حاصل کریں ۔ جہاں بندہ اپنے مولا کے قرب کو حاصل کرلیتا ہے ۔ اور اس طرح عبادت میں مصروف ہوتا ہے ۔ کہ گویا کہ اپنی بصیرت کی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا ہے ۔ جو زکوٰۃ دیں اور اپنے مال ودولت کو اس کی راہ میں خرچ کریں ۔ اور وہ لوگ جو شریر دشمن کے مقابلہ میں عاجز اور کمزور نہ ہوں ۔ جو بلا دلیلغ ان سے بزور بدلہ لے سکیں ۔ اور ان کو ان کے مفسدانہ طرز عمل سے بار رکھ سکیں ۔ کیونکہ برائی اور شرارت کی جزا بھی اسی قدر ہونی چاہیے ۔ ہاں جو شخص چاہے کہ باوجود قابو پانے کے اور غصہ وغضب کے اپنے مخالف کو معاف کردے ۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ بہترین پوزیشن ہے ۔ اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔ اور عزائم امور میں سے ہے ۔ جس کا مرتبہ عام لوگوں سے بلند اور برتر ہے *۔ یہ واضح رہے کہ اسلام نے جو دین فطرت ہے ایک طرف تو علو کی فضیلت کو بیان کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ یہ عادت عزیمت کی عادت ہے ۔ اور دوسری طرف سزا اور بدلہ کی بھی تعریف کی ہے اس کی وجہ ہے ۔ کہ اصل میں نہ عفو بہتر ہے ۔ اور نہ سزا وانتقام دیکھنا یہ ہے ۔ کہ مقام اور حالات کے مطابق ان دونوں حربوں میں سے کون حربہ عمل سے متاثر ہوتا ہے ۔ اور مقصد حاصل ہوجانا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شریر کا غصہ نرمی سے اور بڑھ سکتا ہے ۔ اور وہ اس کو عاجزی اور ضعف پر محمول کرتا ہے ۔ لہٰذا اسلام کہتا ہے کہ تم ان دونوں چیزوں کو اپنے سامنے رکھو اور ہر موزوں کو سمجھوکہ وہ تمہیں کسی ایک چیز کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا *۔