وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
اگر اللہ اپنے سب بندوں کارزق فراخ ردیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے لیکن وہ جس قدر چاہتا ہے ایک مناسب انداز سے اتارتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر اور ان پر نگاہ رکھنے والا ہے
آیت 27 تا 36: حل لغات :۔ بقدر ۔ یعنی ایک انداز کے ساتھ اس طرح کہ کائنات کا نظام باقی رہے * اقنطوا ۔ مایوس ہوگئے ۔ قنوط سے ہے ۔ بمعنی مایوسی * بٹ ۔ پھیلایا ۔ منتشر کیا * دابۃ ۔ حیوان زمین پرچلنے والے جانور *۔ حل لغات :۔ کالا علام ۔ پہاڑوں کی طرح * اعلام ۔ جمع علم کی ہے * یوبھن ۔ تباہ کردے *۔ مادیات میں غور وفکر ف 1: قرآن حکیم اس بات پر بڑا زور دیات ہے ۔ کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ان فیوض کو غورو تعمق کی نظر سے دیکھیں جو کارگاہ حیات کو زندگی بخش رہے ہیں ۔ اس کے نزدیک جس طرح یہ ضروری ہے ۔ کہ شریعت اور فقہ کا مطالعہ کیا جائے ۔ معاشری قوانین کی افادیت پر غور کیا جائے ۔ اور سیاست واخلاق کے مسائل کو زیر بحث لایا جائے ۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ قدرت ، طبیعت اور مادیت کا عمیق مطالعہ کیا جائے ۔ اور کائنات کے اسرار مکنون کو دریافت کیا جائے کیونکہ جس طرح صحیح معاشرتی اور اخلاقی تعلیم سے انسان کو روحانی سعادت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مشکل ترین مسائل سلجھ جاتے ہیں اور زندگی نہایت پرسکون اور پر از طمانیت ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح صحیفہ قدرت کی نصوص سے استنباط مسائل ہماری مادی قوتوں میں اضافہ کردیتا ہے ۔ اور تمدن کو زیادہ وسیع ، زیادہ شاندار اور زیادہ بہتر بنادیتا ہے قرآن کا منشا یہ ہے ۔ کہ سابقہ مذاہب نے جو دماغوں میں ایک نوع کا جمود اور تعطل پیداکررکھا ہے ۔ وہ دور ہو اور غور وفکر کے لئے فراغ اور شادات میدان مہیا ہوں ۔ تاکہ انسان تسخیرات اور فتوحات فکری اپنے لئے ایسے اقلیم لامحدود کو پالیں ۔ کہ نگ ووہ کہیں ختم نہ ہو ۔ اسی لئے آپ اس کتاب عزیز میں دیکھیں گے ۔ کہ آسمانوں اور زمین کی وسعتوں پر غور کرنے کے لئے بارہا آمادہ کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا کہ تمام مظاہر قدرت پر فرداً فرداً غور کرو ۔ اور سوچو اور پھر اس نتیجہ پر پہنچو ۔ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں کس درجہ وسیع ہیں اور وہ کس درجہ لائق اکرام واحترام ہیں *۔ فرمایا : اللہ کے اجرام سماوی کو پیدا کیا ہے ۔ زمین کو بھی تمہارے پاؤں تلے بچھایا ۔ اور پھر اس میں زندہ کائنات بھی پھیلا رکھی ہے ۔ کیا اب اس بات کا ثبوت نہیں ۔ کہ وہ جب جائے گا انسانوں کو محاسبہ کے لئے جمع کرسکے گا ۔ کہ بتاؤ تم نے دنیا میں رہ کر ہمارے فیوض سے کس حد تک استفادہ کیا *۔ اسی طرح اس کی نشانیوں میں سے بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز ہیں ۔ کہ سمندر میں پہاڑوں کی طرح کھڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کھیلنے کے لئے کچھ محالات مقرر کررکھے ہیں ۔ اگر وہ ہواؤں کو روک لے اور ان قانونوں کو حرکت میں نہ لائے تو یہ کشتیاں اور یہ جہاز ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں ۔ وہ لوگ جو صبر کے زیور سے آراستہ ہیں اور جو اللہ کی نعمتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ان مظاہر قدرت سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ اور چیزوں کو تو قرآن بیان کرتا ہے ۔ مگر سمندروں پر حکومت دوسری قوموں کی ہے ۔ آج وہ جانتے ہیں ۔ کہ کیونکر بڑے بڑے جہازوں کو سمندر کی سطح پر چلایا جاسکتا ہے اور جن کو ان کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ وہ محض ناآشنا ہیں *۔ درمیان میں بعض وہی حقائق کو بھی بیان فرمایا ہے اور بعض غلط فہمیوں کو دور کیا ہے ۔ مثلاً لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مصیبتیں آتی ہیں ۔ وہ خدا کی طرف سے آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ہے ۔ کہ جہاں تک اجتماعی مصائب کا تعلق ہے ۔ وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں ۔ اور تمہارے اکثر جرائم تو ایسے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان سے یکسر درگزر فرماتے ہیں ۔ اور ان کی سزا نہیں دیتے ۔ ورنہ تمہارے لئے جینا مشکل ہوجائے ۔ اسی طرح ان کی اس غلط فہمی کو دور کیا ہے ۔ کہ تمہاری مخالفانہ کوششوں سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ فرمایا یقین رکھو ۔ کہ تم اللہ کو عاجز اور مجبور نہیں کرسکتے پھر اسی طرح دنیائے دوں کے متعلق جو ان لوگوں کا خیال تھا ۔ اس کی تردید فرمائی ۔ اور کہا کہ سچی اور حقیقی زندگی عقبیٰ اور آخرت کی زندگی ہے ۔ اور اللہ کے نیک بنے اسی زندگی کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں ۔ اور اپنے پروردگار پر پورا پورا بھروسہ رکھتے ہیں *۔