وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
پھر (ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا "اے آدم تو اور تیری بیوی دنووں جنت میں رہو جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسر کو، مگر دیکھو، وہ جو ایک دخرت ہے تو کبھی اس کے پاس بھی نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے قریب گئے تو (نتیجہ یہ نکلے گا کہ) حد سے تجاوز کر بیٹھو گے، اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں
(ف2) : پہلے انسان کی پہلی جگہ : قرآن حکیم ، انسانی خلافت ‘ انسانی علم کے بعد پہلے انسان کے لئے جو جگہ تجویز فرماتا ہے ، وہ جنت ہے یعنی رضائے الہی کا آخری مظہر ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی اصلی جگہ جنت ہے فطرت نے پیدا اسے اس لئے کیا ہے کہ وہ بارگارہ رحمت وفیض میں عیش وخلود کی زندگی بسر کرے ، چنانچہ ارشاد باری ہے کہ تم یہیں رہو ۔ مگر اس درخت کو استعمال میں نہ لانا ورنہ رحمت باری سے دور ہوجاؤ گے اور تمہیں کچھ عرصے کے لئے اپنے اصلی مقام سے الگ رہنا پڑے گا ۔ یہ قید اس لئے لگا دی تاکہ آدم (علیہ السلام) کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہوجاتا ہے ، اس کا خیال رہے یہی مطلب ہے اس حدیث کا (إن الجنة حفت بالمكاره) یہ جنت میں آدمی ابتلاء وآزمائش میں پورا اترنے کے بعد جا سکتا ہے ، ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن نے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے ، قرآن کہتا ہے پہلا انسان اللہ کا نائب ہے ۔ عالم اشیاء وحقائق ہے ، مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے ، فرشتوں کا مسجود ہے ۔ (ف1) آدم (علیہ السلام) بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آگئے اور درخت کے متعلق انہیں غلط فہمی ہوگئی وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرنا ہے ، حالانکہ خدا کا منشاء مطلقا اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا ، چنانچہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی نیک نیتی پر خدا نے شہادت دی ۔ ﴿فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا﴾ اس لئے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے ۔ الفاظ کی مخالفت نہیں ۔ حل لغات : رَغَدًا: فراوانی ، بےکھٹکے ۔ الشَّجَرَةَ: درخت ، عربی میں جھگڑنے کے معنی ہیں ۔ شجرۃ بالتاء استعمال نہیں ہوتا ،