يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو (٤٤)
﴿أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ (ف1) سود کی مکمل بحث سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے یہاں اس کی مزید شناعت آئی ہے کہ یہ کیا انصاف ہے ، تم اصل رقم سے کئی گنا زیادہ وصول کرلیتے ہو اور پھر تمہارا قرض باقی رہتا ہے ، بات یہ ہے کہ جاہلیت میں ایک شخص متعین حد تک کے لئے سود پر روپیہ دیتا ، جب وہ مقررہ وقت آتا اور مقروض نہ دے سکتا تو اس سے کہا جاتا کہ اصل رقم میں اضافہ کرو تو مدت بڑھائی جا سکتی ہے ، اسی طرح سود ﴿أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ ہوجاتا جو قطعا ناقابل برداشت ہے ، اسلام نے اس سے روکا ہے ، اس کا یہ مقصد نہیں کہ جائز مقدار میں سود کا لینا دینا جائز ہے ، جیسا کہ بعض نافہم لوگوں نے سمجھا ہے ، یہ قید ﴿أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ کی امر واقعہ کے اظہار کے لیے ہے ، نہ تعبین وتحدید کے لئے ۔