وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ نے تو ( جنگ) بدر کے موقع پر ایسی حالت میں تمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ (٤٢) لہذا (صرف) اللہ کا خوف دل میں رکھو، تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔
غزوہ احد : (ف ١) غزوہ بدر کے بعد مقام احد پر کفار جمع ہوئے مقصود یہ تھا کہ بدر کا انتقام لیا جائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی تو صحابہ (رض) عنہم اجمعین سے مشورہ طلب کیا اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کو خصوصیت سے بلایا ، اس نے مشورہ دیا کہ آپ مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کریں ، اس لئے کہ ہم جب بھی مدینہ سے باہر رہ کر لڑے ہیں ہمارا نقصان ہوا ہے مقصد یہ تھا کہ مخالف آسانی سے مدینہ پر قبضہ کرلیں ، یہ ایک چال تھی ، دیگر صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے فرمایا ، ہم چاہتے ہیں کہ میدان میں نکل کر جام شہادت پئیں ، ایسا نہ ہو کہ مخالف ہمیں بزدل سمجھیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے خواب مین دیکھا ہے کہ گائے ذبح کی جا رہی ہے اس سے میں نیک فال اخذ کی ہے ، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میری تلوار آگے سے ٹوٹ گئی ہے ، اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ قدرے شکست ہوگی ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے زور دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکل کر لڑیں ، انہیں شوق شہادت نے بےقرار کر رکھا تھا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر گئے اور مسلح ہو کر باہر نکلے ، اب صحابہ (رض) عنہم اجمعین بچھتائے کہ کہیں ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادہ کے خلاف تو انہیں مجبور نہیں کیا ، کہنے لگے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو خواہش ہو وہ بہتر ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، خدا کا بہادر پیغمبر جب ایک دفعہ مسلح ہوجائے تو ہتھیار نہیں اتارتا ، اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین ساتھ ساتھ چلے ۔ عبداللہ بن ابی نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں تو سخت مایوس ہوا اور اپنے تین سو آدمی لے کر الگ ہوگیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں پہنچے ، صفیں درست کیں ایک ایک سپاہی کی جگہ مقرر کی ، عبداللہ بن جبیر (رض) کو تیراندازوں کا امیر مقرر کیا اور فرمایا ، اس درے پر مضبوطی سے کھڑے رہنا ۔ جب جنگ شروع ہوئی اور مسلمان مخالفین پر چھاگئے تو غنیمت کے لالچ میں اور یہ سمجھ کر کہ اب تو میدان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے مسلمان مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہوگئے ، مخالفین نے مسلمانوں کے تغافل سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پل پڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں بھاگڑ مچ گئی ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چوٹیں آئیں ، اگلے دانٹ ٹوٹ گئے اور چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا ، عام مسلمانوں میں یہ مشہور کردیا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیئے گئے ہیں جس سے سخت بددلی پھیل گئی ، اس کے بعد چند جان نثار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئے اور بڑی بےجگری سے لڑے ۔ ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رہی ہیں ، دیکھو بدر میں تمہاری تعداد بہت کم تھی اور کفار کا ایک لشکر جرار مقابلہ پر تھا پھر بھی فتح اسلام کے شیدائیوں کو ہوئی ، فرشتوں کا نزول خدا پرستوں کی تائید وتثبیت کے لئے تھا مادیت پر ست لوگ ممکن ہے اس کو تسلیم نہ کریں ، مگر واقعہ یہ ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے عقیدت مندوں کو عزت وغلبہ سے نوازتا رہتا ہے ۔ فرشتے بدر میں نازل ہوئے تھے جیسا کہ جمہور مفسرین کا خیال ہے اور سیاق کلام سے بھی ظاہر ہوتا ہے ، احد میں نہیں ۔ (آیت) ” اذ غدوت من اھلک “۔ الخ میں یہ بتایا ہے کہ نبی صرف محراب ومنبر میں ہی نہیں گرجتا ‘ بلکہ میدان جنگ میں بھی وہ سپاہیانہ حصہ لیتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ جامعیت کبری کے وصف سے متصف تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ وہ تدابیر جنگ سے بھی کما حقہ ‘ واقف ہوں ، یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دین ودنیا کی خوبیاں جمع ہیں ، ایک طرف مسجد میں امام ہیں اور دوسری طرف جنگ میں بطل فنا ۔