سورة آل عمران - آیت 110

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حدود تبلیغ : (ف ١) اس آیت میں تمام مسلمانوں کو فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے آمادہ کیا ہے مگر خود تبلیغ کی حدود کیا ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ قرآن حکیم نے تبلیغ واشاعت کو دو لفظوں سے تعبیر کیا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔ یعنی نیکی ‘ بھلائی اور سچائی کی تلقین اور برائی سے اظہار نفرت وتحقیر ۔ ظاہر ہے یہ دو لفظ انتہا درجہ کی وسعت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہی ، معروف کا اطلاق نیک اقدام پر ہو سکتا ہے اور منکر کا ہر برے اقدام پر ، چونکہ ان دو لفظوں میں فرد وجماعت کی تمام نیکیاں اور برائیاں آجاتی ہیں ، اس لئے جواب بالکل آسان اور واضح ہے کہ تبلیغ کی حدود فرد وجماعت کی تمام وسعتوں پر حاوی ومحیط ہیں ، دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسی پاکیزہ اور بلند عادات رکھنے والی جماعت کا نام ہے جس کا ہر فرد مبلغ ہے ، صالح ہے اور مصلح ہے اور پھر تبلیغ کا طریق صرف پندوموعظت ہی نہیں ‘ بلکہ طاغوت کے خلاف جنگ بھی اس مفہوم میں داخل ہے مسلمان صرف محراب ومنبر ہی میں محدود رہ کر اعلاء کلمۃ اللہ کا سامان پیدا نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی وہ دارورسن کو بھی دعوت امتحان دیتا ہے اس کا امکان تبلیغ صرف پرشور جلسے اور ہنگامہ خیز مجھے ہی نہیں ہوتے بلکہ سیف وسنان کے مرکز اور توپ وتفنگ کے میدان بھی اس کے دائرہ فتوحات میں شامل ہیں ، وہ صرف قلم وزبان کو ہی جنبش نہیں دیتا بلکہ وقت پڑنے پر نیزہ بھالا اور برچھی سب اس کے اشارہ پر رقص کناں ہوتے ہیں ۔ حل لغات : الفاسقون : حدود اصلیہ اسلامیہ سے تجاوز کرنے والا ۔ الادبار : جمع دبر بمعنی پشت ۔