وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔
پیغام اخوت : (ف ١) پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان بجز اسلام کے اور کسی چیز پر قانع نہیں رہ سکتا اور اس کی فطرت کے موافق اسلام کے سوا اور کوئی پیغام نہیں ، اس لئے اسے حکم دیا گیا کہ (آیت) ” ولا تموتن الا وانتم مسلمون “۔ یعنی اگر موت بھی آئے تو اسلام پر ، اس کے بعد (آیت) ” واعتصموا بحبل اللہ “ کی تائید کی ہے یعنی مسلمان کا خدا کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق ہو اور اس درجہ وابستگی ہو کہ دنیا کا کوئی اور رشتہ اسے منقطع نہ کرسکے ، وہ صرف خدا کے لئے زندہ رہے اور خدا کے لئے مرے اس کا اپنا مفاد اپنے اغراض یکسر مٹ جائیں ، اور اس کے تمام تعلقات اسلام وصداقت کے لئے ہوں ، کفر اور جھوٹ سے اسے قطعا محبت نہ ہو اور وہ دنیا کے تمام مادی رشتوں کو کاٹ دے اور اسلام کے حبل متین سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے ۔ ظاہر ہے اس درجہ اخلاص کے بعد جبکہ سچائی اور صداقت کے سوا اور کوئی چیز اپنی نہ رہے ‘ اختلاف اٹھ جاتا ہے اور تفریق وتشتت کے امراض پیدا نہیں ہوتے ، اس لئے قرآن حکیم مسلمانوں کو کہتا ہے کہ دیکھو تم میں تفریق وانتشار کے جھکڑ نہ چلنے لگیں تم ہمیشہ ہی اخلاص پر قائم رہو ‘ جسے اللہ نے اسلام کے ذریعہ تم میں پیدا کیا ، عربوں میں اسلام کے پیغام اخوت سے پہلے انتہادرجہ کی تھیں وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے اور اپنے دلوں میں صدہا سال کے کینوں کو پالتے رہتے اور اس فطرت کینہ توزی پر فخر کرتے ، ایک دفعہ جب لڑائی کی آگ سلگتی تو پھر اس وقت تک اس کے شعلے نہ بجھتے جب تک کہ سارا عرب اس سے نہ جھلس جاتا وہ اپنے ان ” ایام غرر “ پر نازاں تھے اور اس وصف زبوں کو بہادری اور جماست سے تعبیر کرتے ، ذرا ذرا سی بات پر ان کا غم وغصہ مستقل جنگ کی شکل اختیار کرلیتا اور وہ برسوں تک اس شغل وتفریق کو جاری رکھتے ، اس وجہ سے وہ بالکل تباہ ہوچکے ، اور ہلاکت وموت کے عمیق غار میں گرنے ہی کو تھے کہ اسلام پیام مودت ومحبت نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا اور سارے عمر اخوت وبرادری کی ایک لہر دوڑا دی ۔ وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے (آیت) ” رحمآء بینھم کے لقب سے نوازے گئے اور اخوت ودوستی کے وہ روح پرور نظارے دنیا والوں کے سامنے پیش کئے کہ آنکھیں اس سے پہلے اس نوع کے نظاروں سے قطعی محروم تھیں ، اس آیت میں تالیف قلب کے اسی موضوع کی طرف مسلمان کی توجہ کو مبذول کیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تاریخ میں اس قسم کے واقعات دہراتا رہے اور بھول کر بھی جماعت بندی اور گروہ بندی کے جھگڑوں میں نہ پھنسے اس لئے کہ اسے بجز تباہی کے اور کچھ حاصل نہیں ۔