وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
(پرھ جب ایسا ہوا کہ مشیت الٰہی نے جو کچھ چاہا تھا ظہور میں آگیا) اور آدم نے (یہاں تک معنوی ترقی کی کہ) تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کرلیے تو اللہ نے فرشتوں کے سامنے وہ (تمام حقائق) پیش کردیے اور فرمایا "اگر تم (اپنے شبہ میں) درستی پر ہو تو بتلاؤ ان (حقائق) کے نام کیا ہیں؟
(ف3) پہلا انسان عالم تھا : اللہ نے ایک جواب تو فرشتوں کو یہ دیا کہ تم خاموش رہو ۔ دوسرا جواب آدم (علیہ السلام) کی قوتوں کا مظاہرہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں علم کا جذبہ رکھا ، اسے تمام ضروریات سے آگاہ کیا ، معارف حیات بتلائے اور فرشتوں کے سامنے بحیثیت ایک عالم کے پیش کیا ۔ فرشتے بھی عالم تھے مگر تسبیح وتقدیس کے آئین وقانون کے فرمانبرداری واطاعت کے طریقوں کے ، انہیں حیات وفنا کے اسرار سے ناآشنا رکھا گیا ، موت وزیست کے جھمیلوں سے الگ ، یہ بغیر کسی کھٹکے اور خرخشے کے عبادت واطاعت میں مصروف تھے ، آدم (علیہ السلام) کو جو علم دیا گیا وہ فرشتوں کے علم سے بالکل مختلف تھا ، اسے مقتضیات انسانی بتائے گئے ، موت وحیات کا فرق سمجھایا گیا ، عبادت واطاعت کے علاوہ دنیا کی آبادی وعمران کے اسرار ورموز سے بہرہ ور کیا گیا ۔ سیاست وحکمرانی کے اصول وضوابط انہیں سکھائے گئے اور وہ تمام چیزیں بتلائی گئیں جو اسے خلیفۃ اللہ بنا سکیں ، فرشتوں کی حیثیت مطیع وفرمانبردار کی تھی اور آدم کی خلافت اس کے وارث کی ، اس لئے جب موازنہ کے وقت فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے منصب رفیع کا علم ہوا تو معذرت خواہ ہوئے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نہ کہتا تھا ﴿إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ کہ غیوب کا علم صرف مجھے ہے تم نہیں جانتے ۔