وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور تمہیں وہی بدلہ دیا جارہا ہے جو تم کرتے ہو
عقیدت مندی کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے ف 1: قیامت میں یہ عجیب لطف کی بات ہوگی ۔ کہ معتقدین اپنے مقتداوں کو ڈھونڈنے جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تم لوگ ہماری نجات کی ذمہ داری لیتے تھے ۔ اور کھلے بندوں کہتے تھے ۔ کہ ہماری عقیدت مندی تمہارے لئے بمعنی میں مفید ثابت ہوگی ۔ اور بجز ہماری اطاعت کے نجات اور سعادت کی سب راہیں مسدود ہیں ۔ آج ہم تکلیف میں ہیں ۔ عذاب الٰہی کو اپنے روبرو دیکھ رہے ہیں ۔ تمہماری مدد کرو ۔ اور عذاب سے چھڑاؤ۔ کہ کہیں گے غلط ہے ۔ ہم تمہاری بدبختی اور محرومی کے ہرگز ذمہ دار نہیں ہیں ۔ ہمارے پاس کوئی قرت نہیں تھی ۔ کہ ہم مجبور کرکے تم کو اپنے حلقہ اراوت میں داخل کرتے ۔ تم خود گمراہ تھے ۔ اس لئے ہماری باتوں میں آگئے ۔ آج تو ہمارے رب کی بات پوری ہوتی نظر آتی ہے آج تو یہ ہوگا کہ پیر اور مرید دونوں جہنم کا مزہ چکھیں گے آج وقت کتنا تکلیف دہ ہوگا ۔ کو وہ لوگ جو دنیوی پیشوا لوگوں کی عقیدت مندی اور اراوت کا مرکز تھے اور جن کے لئے دنیا ہر شحص سے دست وگریباں ہوتے تھے ۔ آج وہ یوں آنکھیں پھیر لیں گے اور کامل بیزاری کا مظاہر کریں گے ۔ اور لطف یہ ہے کہ وہ خود بھی خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے ۔ فرمایا : آفتاب نبوت کی حقانیت میں کون شبہ کرسکتا ہے ۔ بات صرف یہ تھی کہ ان کی آنکھوں پر کبرونخوت کا پردہ پڑگیا تھا ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو توحید کی طرف بلاتے اور کہتے کہ بجز خدائے واحد کے اور کوئی شخصیت اس لائق نہیں کہ ۔ کہ اس کی چوکھٹ پر اپنی جبیں نیاز جھکائی جائے تو یہ کہتے کیا ہم اپنے خداؤں سے منہ موڑ لیں ۔ کیا بتوں کو چھوڑ دیں ۔ اور محض اس بناء پر اپنے معبودوں سے بیزاری کا اعلان کردیں کہ ایک شاعر اور مجنون ہمیں اس چیز کے لئے مجبور کررہا ہے ۔ گویا کمک بختوں کے نزدیک حضور شاعر تھے اور جو کچھ کہتے تھے اس میں کوئی صداقت نہ تھی اور مختل دماغ کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ فرمایا یہ بات نہیں آج ان لوگوں کو معلوم ہوگا ۔ کہ ان کا عقیدہ آپ کے متعلق کس درجہ غلط تھا ۔ آپ حق وصداقت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور تمام رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہیں اس انکار وتمردی پادش میں عذاب الیم کا مزہ چکھنا پڑیگا ۔ اور کہا جائے گا کہ بتاؤ کون عقل سلیم سے خارج ہے ؟ کس کا دماغ مختل ہے ؟ اور کون ہے جس کو تم شعر اور دروغ بانی کے ساتھ مہتم کرتے ہو جو سزائیں تم کو دی جائیں گی ۔ وہ تمہاری کرتوت کی بنا پر ہونگی ۔ ورنہ اللہ کی رحمتیں یہی چاہتی ہیں ۔ کہ تم ایمان و عمل صالح کی دعوت کو قبو کرلو اور اس عذاب سے مخلصی حاصل کرلو *۔