وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
نبیوں علیہم السلام کا نبی (ﷺ) : (ف1) تمام نبیوں علیہم السلام کا دائرہ تبلیغ عام انسانوں تک ہے اور وہ صرف اس حد تک مکلف ہیں کہ وضیفہ رشد وہدایت کو مفروضہ قوم کے لئے جاری رکھیں ، یعنی سب کے مخاطب عام انسان ہیں جن کو ان پر ایمان لانا ضروری ہے ، مگر پیغمبر کون ،خواجہ عالم وعالمیان (ﷺ) کی نبوت عام انسانوں سے گزر کر انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ضروری ہے ، اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں پیدا کیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ باوجود اس کتاب وحکمت کے جو تمہیں دی گئی ہے ‘ تم پر لازم ہے کہ جب حضور (ﷺ) منصہ شہود پر آئیں تو ان پر ایمان لاؤ اور ان کی نصرت میں اقدام کرو ، سب نے کہا منظور ہے اور ہم اس حقیقت نیرہ کے شاہد وگواہ ہیں ، گویا آپ (ﷺ) کی نبوت کو مانا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ (ﷺ) پیغمبروں کے پیغمبر (ﷺ) اور نبیوں کے نبی (ﷺ) ہیں اور آپ (ﷺ) کا پیغام تمام صداقتوں کا حامل اور آپ (ﷺ) کی نبوت تمام انبیاء کی مصدقہ ہے ۔ بات یہ ہے کہ آپ (ﷺ) سے پہلے جس قدر انجم فلک کائنات پر جلوہ گر ہوئے وہ آپ (ﷺ) کی آمد کا اعلان تھے اور اس کتاب ہدی کا مقدمہ یا دیباچہ تھے جو حضرت انسان کو عنایت ہونے والی تھی ، جس طرح سپیدۂ سحری صبح جان نواز کا پیشہ خیمہ ہوتی ہے ، اسی طرح سابقہ نبوتیں، پہلے پیغام ‘ سب اس نبی اکبر (ﷺ) اور خاتم پیغمبران کی تمہید سمجھئے یا سرنامۂ خط ۔ وہ جو مقصود حاصل ہے وہ حضور (ﷺ) کی ذات بالشمائل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ کتابوں میں اس محبوب اصل کے خدوخال کا ذکر پایا جاتا ہے ، کہیں اسے ” سرخ وسفید “ کہا گیا ہے کہیں ” فارقلیط “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ۔ کہیں ” آتشیں شریعت کا پیش کرنے والا “ کہا گیا ، کہیں صاف صاف ” محمدیم “ کہہ کر ہر شبہ کو اڑا دیا گیا اور ہر پردہ کو چاک کردیا مگر باجود اس وضاحت اور صراحت کے بعد طبیعتیں ایسی ہیں جو بجز انکار اور سرکشی کے کسی چیز پر قانع نہیں ہوتیں ۔ فرمایا وہ لوگ جو آفتاب عقل کی درخشانی کے بعد بھی آپ (ﷺ) کو ماننے میں متامل ہیں ‘ ان سے زیادہ بدقسمت اور فاسق کون ہے ؟ حل لغات : أَقْرَرْتُمْ: مصدر اقرار بمعنی ماننا ، اعتراف کرنا اور قبول کرلینا ۔ إِصْرِ: عہد، قول ۔