وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور انہی میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے ہیں جو کتاب ( یعنی تورات) پڑھتے وقت اپنی زبانوں کو مروڑتے ہیں تاکہ تم ( ان کی مروڑ کر بنائی ہوئی) اس عبارت کو کتاب کا حصہ سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہوتی، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ( عبارت) اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں۔
بددیانتی : (ف1) ﴿ليٌّ﴾ کے معنی میل وانحراف کے ہیں نری برأسہ کے معنی سر کو ایک طرف جھکا دینے کے ہیں ، ﴿يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ﴾کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ الفاظ کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ معانی میں ایک قسم کی تحریف وانحراف پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی اہل کتاب میں ایک فریق یہودیوں کا ایسا ہے جو اپنی طرف سے کچھ عبارتیں وضع کرلیتا ہے اور اسے تورات کی طرف منسوب کردیتا ہے ، یا وہ تورات کے الفاظ کو اس طرح پڑھتا ہے جس سے معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے ، بات یہ ہے کہ عبرانی رسم الخط اس قسم کا ہے کہ بعض حروف تھوڑی سی صوتی تبدیلی سے کیا سے کیا ہوجاتے ہیں ، اس لئے محرفین کو موقع ملتا ہے کہ وہ اس کمزوری سے جو رسم الخط سے تعلق رکھتی ہے ‘ اپنی خواہشات کے مطابق ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔ قرآن کریم یہودیوں کی اس بددیانتی پر انہیں برملا ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اس افترا اور جھوٹ سے باز آؤ اور جانتے بوجھتے اس فعل شنیع کے مرتکب نہ بنو ۔