سورة سبأ - آیت 3

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں، قسم ہے میری رب عالم الغیب کی وہ ضرور تم پر آئے گی (٢)۔ اس اللہ سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں اور نہ ذرہ کی مقدار سے کوئی چیز چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر وہ کتاب مبین میں موجود ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 2: حشیراجساد کا مسئلہ مکے والوں کے لئے ہمیشہ ابتلاد کا باعث رہا ہے ۔ ان کی سمجھ میں یہ حقیقت کبھی نہیں آئی ۔ کہ جس خدا نے کتم عدم سے دنیا کو نکالا ہے ۔ اور خلعت وجود بخشا ۔ وہ جب چاہے گا پھر اپنے بندوں کو قبروں سے اٹھا کر کھڑا کردیں گا ۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ جب خدا کو تسلیم کرلیا ۔ اس کی قدرتوں اور وسعتوں پر ایمان لے آئے ۔ تو پھر استحالہ اور اشکال کے لئے کون گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ وہ قادر مطلق بمجرد اپنے ارادہ کے ہزاروں عالم بیک وقت پیدا کرسکتا ہے ۔ اور فنا کرسکتا ہے ۔ اس کی ایک نگاہ غضب تمہاری کائناتکو چشم زون میں تباہی کے گھاٹ اتار سکتی ہے ۔ اور اس التفات کی نظر سے دیکھ لینا زندگی اور حیات کو بیدار کردیتا ہے ۔ قرآن حکیم نے مکے والوں کے شبہات کو دور کرنے کے لئے مختلف طریقوں اور مختلف دلائل سے کام لیا ہے ۔ یہاں دو باتوں کو بطور استدلال کے پیش فرمایا ہے ۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ دو طریقوں سے ان کی توجہ کو اس مسئلہ کی حقیقت کی طرف مبذول فرمایا ہے *۔ ارشاد ہے ۔ کہ جب ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ اور چھوٹی بڑی ہر شئے ان کے سامنے عیاں ہے چاہے وہ آسمان کی بلندیوں میں موجود ہو ۔ اور چاہے وہ زمین کی گہرائیوں میں ہو ۔ تو پھر عناصر حیات کو جمع کرلینا کیا مشکل ہے ؟ دوسری دلیل یہ ہے ۔ کہ انسان کے نفس اعمال ایک مکافات کی دنیا کے متقاضی ہیں ۔ اگر یہ درست ہے تو ہبت سے فاسق وفاجر انسان تعزیر وعقوبت سے بچ جاتے ہیں ۔ اور بہت سے نیک اور صالح حضرات اس دنیائے دوں میں تکلیف وحسرت کے ساتھ بسر کرتے ہیں تو پھر یہ بھی درست ہے ۔ کہ انصاف وعدل کے لئے ایک دن مقرر ہونا چاہیے *۔ حل لغات :۔ یعزب ۔ افعاذب ۔ اس شخص کو کہتے ہیں جو چارہ کی تلاش میں اپنے لوگوں سے بہت دور نکل جائے ۔ اور نظروں سے اوجھل ہوجائے ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ خدا سے کوئی چیز مستتر نہیں ہے * رزقی کریم ۔ مفید روزی ۔ لفظ کریم کا تعلق جب اشیاء سے ہو تو اس سے آخادۃ مراد بنتا ہے *۔