سورة الأحزاب - آیت 72

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس بارگراں کے متحمل نہ ہوسکے لیکن انسان (آگے بڑھا اور اس) نے اسے (بلاتامل) اٹھالیا کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے اوپر سخت ظلم کرنے والا اور سرگشتہ نادانی ہے (١٥)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عرضِ امانت ف 1: اماتت سے مراد عقل وشریعت کی ذمہ داری ہے اور فرضنا سے مراد یہ ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو پیدا کیا ۔ تو دیکھا کہ کیا آسمانوں کی بلندیاں ، اور زمین کی وسعتیں اور پہاڑوں کا استحکام اس قابل ہے کہ ان چیزوں پر عقل وشریعت کی ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ۔ اور ان کو اپنے صفات حسنہ کا مظہر بنایا جائے ان کی فطرت کو ٹٹولا گیا ۔ تو معلوم ہوا ۔ کہ ان سب میں یہ اہلیت نہیں ہے ۔ پھر انسانی مشت خاک پر نظر پڑی ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ باوجود کائنات میں بہت زیادہ کمزور اور تحیف ہونے کے اپنی فطرت واطوار کے لحاظ سے اس قابل ضرور ہے ۔ کہ تکلیفات شرعیہ کو اٹھا کے اور دنیا میں خلافت الٰہیہ کا علم بردار ہو ۔ چنانچہ یہ امانت کا بار گراں اس کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ۔ اور اس نے اس کو اٹھا لیا ؎ آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیواد تودمہ غرض یہ ہے کہ حضرت انسان کو فطرت نے ازل سے اس خدمت کے لئے منتخب کررکھا تھا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ کہ یہ اس منصب جلیل کا اہل ثات ہو اور اپنے فکروعمل سے آسمانوں اور زمین پر بستیوں اور بلندیوں پر اپنا تفوق ثابت کردے *۔ یہ ایک پیرایہ بیان ہے ۔ انسانی فضیت کے اظہار کا اور حقیقت یہ ہے ۔ کہ اس سے زیادہ بلیغ اسلوب اختیار کرنا انسانی وسعت کے باہر ہے ورنہ معاذ اللہ یہ مقصد نہیں ہے کہ خدائے تعالیٰ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں کون شریعت کے اس بار کو اٹھا کستا ہے ۔ اور کون نہیں اٹھا سکتا *۔ اس سورت میں ظلوا اور ھہولا کا لفظ بطور طنز کے نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت کا عین تقاضا تھا ۔ کہ وہ رشدوہدایت کا محتاج ہو ۔ اور فکر و شریعت کی راہ نمائی کو قبول کرلے ۔ اس کے لئے اور کوئی چارہ ہی نہیں ۔ بجز اس کے کہ اس امانت عزیز کا بشرشمتحمل ہوجائے اور اس پر اپنی برتری کو محسوس کرے ۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں پر حاصل ہے ۔ یہاں انسانی شرف ومجد کا ذکر ہے ۔ لہٰذا اس کے معنی یہاں ترجم اور تلطف کے ہونگے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ دیکھو یہ ظالم اور ناعاقبت اندیش انسان کس درجہ رحم کے قابل ہے کہ اس گراں بہا ذمہ داری کو تنہا اٹھا لینے کا مدعی ہے *۔ حل لغات :۔ یعملھا ۔ حمل کے معنے یہ بھی ہوتے ہیں ۔ کہ وہ بوجھ اور ثقل سے عہد برآہ نہ ہوسکا ۔ اس صورت میں آیت کا مطلب بالکل بدل جائے گا ۔ اور یوں ہوگا ۔ کہ ہم نے آسمان زمین اور پہاڑوں کے فطری ثقل یا فرائض کو ان پر پیش کیا انہوں نے عہد براء ہونے سے انکار کردیا ۔ بمعنی اپنے ان فرائض کو قبول کرلیا ۔ جو اللہ نے ان پر عائد کئے تھے اور وہ اللہ کے خوف سے معمور ہوگئے مگر انسان نے عہدہ برآہ ہونے کے لیے یعنی اپنے مفوضہ فرائض کو ادا نہ کیا ۔ اس لئے یہ ظالم ہے اور جاہل ہے *۔