أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
تمہارے حق میں بخل کا جذبہ لیے ہوئے جب کوئی خطرے کا وقت آجائے تو اس طرح آنکھیں گھما کر آپ کی طرف دیکھتے ہیں جیسے کہ مرنے والے پر غشی طاری ہورہی ہو، پھر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہ لوگ مال کے حریص بن کر تیز کلامی کے ساتھ آپ کو طعنے دینے لگتے ہیں یہ لوگ درحقیقت ایمان ہی نہیں لائے لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال برباد کردیے اور ایسا کرنااللہ کے لیے نہایت آسان ہے
ان آیات میں منافقین کے خوف وہراس کی تصویر کھینچ دی ہے کہ یہ لوگ کس درجہ بزدل ہیں اور کس درجہ مرعوب اور متاثر ہیں ۔ فرمایا جب خوف وہراس کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس طرح پھر رہی ہیں جس طرح موت کی غشی ان پر طاری ہے جب وہ خوف وہراس دور ہوجاتا ہے ۔ تو زبانوں پر طعن وتشنیع کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں ۔ اور بڑی دیدہ دلیری سے مال غنیمت میں اپنے حصے لگاتے ہیں ۔ گویا ان کو نفاق وطمع کی اس وقت سوجھتی ہے جب بلا ٹل جاتی ہے ۔ اور مصیبت کے وقت یہ بالکل حواس باختہ ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات: أَشِحَّةً۔ شح کی جمع ہے ۔ معنی حریص ۔ بخیل ۔