سورة لقمان - آیت 12

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کاشکر ادا کرتا رہ اور جو شکرگزار ہوگا تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے شکر کرتا ہے اور جس نے ناسپاسی کی تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے (٣)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضرت لقمان ف 2: معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لقمان پیغمبر نہیں تھے مگر ایک ضاع اور دانشمند آدمی تھے ۔ اور جہاں تک اس وقت کے عربوں کا تعلق ہے ۔ ان میں ان کے حکیمانہ اقوال کا کافی چرچا تھا ۔ یہی وجہ ہے ۔ قرآن حکیم نے ان کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ۔ کہ گویا پہلے سے مخاطبین انہیں جانتے ہیں *۔ حکمت کے معنے لغت میں کسی چیز کی حقیقت پہچاننے کے ہیں اور اصلاح میں دانائی اور درست کرداری سے تعبیر ہے ۔ اور اس کی اعلیٰ ترین قسم وہ ہے جس میں دنیا کے کے معاشری عقدوں سے بحث کی جائے ۔ اور یہ بتایا جائے ۔ کہ کن اصولوں کے ماتحت ایک انسان انسانی ہیئت اجتماعیہ کا بہترین رکن بن سکتا ہے ! اور کس طرح اس کا وجوہ اپنے ابنائے جنس کے لئے باعث رحمت وبرکت ہوسکتا ہے *۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ۔ کہ لقمان کو سب سے بڑی حکیمانہ باتیں عطا کی گئی تھیں ۔ وہ یہی تھیں ۔ کہ وہ شاکر تھے ۔ یعنی وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کے انعامات مادی وروحانی کو استعمال کفر اور ان کو ظاہر کرنا ، یہ سب سے بڑی فضیلت ہے ان کو یہ معلوم تھا کہ کون حق احاطہ شکر میں داخل ہیں ۔ اور جن کو مان کر انسان بہترین معاشری فضائل کو حاصل کرسکتا ہے ۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب قول ، عمل ، عقیدہ اور اللہ نعمتوں کا اقرار ، انسان کے اپنے فائدے کے لئے ہے ۔ اللہ مطلقاً حمد کو ستائش سے بےنیاز ہے وہ فی نفیسہٖ لائق حمد اور قابل تعریف ہے ۔ چنانچہ ان کی بات سے یہ سب چیزیں واضح ہیں *۔