سورة الروم - آیت 16

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ فَأُولَٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو یہ لوگ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بہترین زاویہ نگاہ ف 1: قیامت کے دن تمام لوگوں میں ایک قسم کا امتیاز پیدا کردیا جائے گا ۔ وہ لوگ جنہوں نے ایمان کی نعمت کو قبول کیا تھا ۔ اور ہمیشہ اعمال صالحہ کے لئے کوشاں رہے تھے جنات نعم میں شالواں فرحاں پھرینگے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ۔ اور خدا کی نشانیوں کو جھٹلایا ۔ آخرت کا خوف دل سے نکال دیا ۔ اور بالکل سرکش ہوگئے ۔ یہ جہنم کے عذاب میں پڑے دکھ اٹھائیں گے *۔ بات یہ ہے کہ اس دنیا میں تو ممکن ہے ۔ کہ جرائم پیشہ لوگ قانون اور عدالت کی نگاہوں سے پوشیدہ رہیں ۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ عوام کی نگاہوں میں نیک اور پارسا ہوں ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ اللہ کو دھوکہ دے سکیں اور مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون سے بچ جائیں ۔ وہاں تو یہ عالم ہوگا ۔ کہ جن لوگوں کو آپ یہاں بڑے احترام واعزاز کا مالک سمجھتے ہیں ۔ اکثر وہاں ذلیل اور رسوا ہونگے ۔ اور جو لوگ بظاہر حقیر اور ناکارہ معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ دولت ایمان کی وجہ سے اپنی خوش قسمتی اور خوش بختی پر نازاں ومفتخر ہوں گے * قرآن حکیم نے جہاں ایمان کا ذکر فرمایا ہے ، وہاں عموماً اعمال صالحہ کا بھی تذکر کیا ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ صرف اقرار بالسان کبات وسعادت کو پانے کے لئے کافی نہیں ۔ بلکہ عمل اور جدوجہد کی بھی ضرورت ہے ۔ وہ ایمان جو عزم صالح اور مضبوط متقین کے مقرون نہ ہو ۔ بیکار ہے ۔ خدا مضبوط ایمان چاہتا ہے جو عمل کی سرحد سے بالکل ملا ہوا ہو ۔ جو یکدم تمام اعضاوجوارح کو حرکت میں لاسکے جو بےچین اور تڑپ کا سبب ہوں ۔ جو بجلی کی طرح ہم میں اثر کی جائے اور دل و دماغ میں آگ سی لگادے ۔ اس طرح ایمان وعمل کو باہم ذکر کرنے سے ۔ یہ بھی مقصود ہے ۔ کہ اعمال صالحہ کے لئے ایمان الصحیح کی ازیس ضرورت ہے ۔ بجز صورت فکر کے عمل اور جدوجہد کی صحت کا یقین کرلینا غلط ہے ۔ ایمان کی حدود سے باہر نیکی اور صلاعیت کا قطعاً پتہ نہیں مل سکتا ۔ یعنی جہاں تک زاویہ نگاہ کا تعلق ہے ۔ اسلام انسانیت کا آخری اور بہترین زاویہ نگاہ ہے ۔ اور جو اس سے محروم ہے گمراہ ہے ۔ اور غلط کار ہے *۔ حل لغات :۔ یحبرون حیر ۔ کے معنے اصل میں حسن وجمال کے نشان کے ہیں ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ۔ یخرجو من النار رجل قد ذھب حیرہ وسیرہ ۔ یعنی آدمی جب جہنم میں سے نکلے گا تو اس کا سارا اجمال اور خوب صورتی ضائع ہوچکی ہوگی اور رعنائی وزیبائی کے نشانات مٹ چکے ہونگے * یہاں یہ مقصد ہے کہ یہ پاکباز لوگ اس درجہ مسرت میں ہونگے کہ ان کے چہروں سے عیاں ہوگا *