سورة الروم - آیت 9

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ؟ (یعنی اگر پھرتے) تو دیکھتے کہ وہ قومین جو ان سے پہلے گزری ہیں ان کا انجام کیا ہوا وہ قومیں تھیں جو ان سے تمدن وترقیات اور قوائے جسمانی سے بڑھ کر قوی تھیں انہوں نے زمین پر اپنے کاموں کے آثار چھوڑے اور جس قدر تم نے اسے متمدن بنایا ہے اس سے کہیں زیادہ انہوں نے تمدن پھیلایا ہے لیکن جب ہمارے رسول ان میں بھیجے گئے اور ہماری نشانیاں انہیں دکھائی گئیں تو انہوں نے سرکشی اور بغاوت سے انہیں جھٹلادیا اور برباد فنا ہوگئے خدا ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا (٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تعلیمات اسلامی عقل پر مبنی ہیں ف 1: قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے ۔ کہ وہ اپنی تعلیمات کی بنیاد فکروغور پر رکھتا ہے ۔ اور ہر شخص سے مطالبہ کرتا ہے ۔ کہ وہ سوچے سمجھے اور حقیقت کو خوب اچھی طرح پرکھے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ لوگ محض مرعوب ہوکر اس کو تسلیم کرلیں ۔ اور ان کے دل مطمئن نہ ہوں ۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ طالق حق ہر طرح کے شکوک سے دماغ کو پاک کرلے اور پوری طرح حلاوت ایمان سے بہرہ ور ہو ۔ قرآن حکیم کو اپنے عقائد پر اس درجہ یقین ہے ۔ کہ وہ عقل وخرد کی جانچ کے سوال کو خود پیدا کرتا ہے اور نبرو آزمائی کی دعوت دیتا ہے اس کی رائے میں جہاں تک سچائی اور صداقت کا تعلق ہے ۔ اسکو فطرت اور عقل سے کوئی خطرہ نہیں ہے ! ورنہ صرف خطرہ ، بلکہ عقل وفکر کا ارتقاء اس کے حقائق کو اور زیادہ روشنی میں لے آتا ہے ۔ کیونکہ اسلام بجاء خود نام ہے ۔ صداقت کا ۔ سچائی کا ۔ فطرت کا ۔ اور تجربات عقل وفکر کے پیش رس نتائج کا * اس آیت میں یہی کہا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ کہ ایک دن اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کے متعلق آخری فیصلہ سننا ہے ان کو چاہیے کہ عقل وہوش سے کام لیں اور سوچیں کہ اگر مکافات عمل کا اصول غلط اور بےمعنی ہے ۔ تو پھر اس نظام کائنات کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر انسان اپنے اعمال میں بالکل آرا ہے اور مرنے کے بعد زندگی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کوئی پرسش نہیں ہونے والی ہے ۔ تو پھر زندگی کے اس بکھیڑے سے کیا مطلب ہے ۔ یہ زمین و آسمان کی وسعتیں اور بلندیاں کیوں ہیں ۔ اور ایسا کیوں ہے کہ روزانہ آفات ہماری خدمت کے لئے چمکتا ہے اور چاند متحرک ہے اور ستارے مصروف گردش ہیں ۔ آخر حقیر انسان کی یہ خاطر داریاں کیا محض بےمقصد ہیں ؟ یا یہ درست ہے کہ ان ساری نعمتوں کے مقابلہ میں انسان سے پوچھا جائے گا ۔ کہ اس نے آخرت کے لئے کیا زاد مہیا کیا ہے ۔ اور کیسا توشہ جمع کیا ہے ؟ حل لغات :۔ اثاروا ۔ اثارۃ سے ہے ۔ یعنی کاشتکاری کے لئے زمین کو الٹ پلٹ کرنا ۔ جوتنا * ف 1: ان دو آیتوں میں بتایا ہے کہ دنیا ہی میں دیکھ لیجئے ۔ برے اعمال کا انجام کتنا عبرت ناک ہوتا ہے ۔ اس سطح معمورہ پر کئی قومیں آئیں ۔ رہیں سہیں ۔ اور مٹ گئیں ۔ کیونکہ انہوں نے خدا کے قوانین سے روگردانی اختیار کی * مکہ والوں سے تخاطب ہے ۔ کہ انہیں دولت وقوت پر گھمنڈ کیوں ہے ؟ ان سے پہلے کی قومیں ان سے کہیں طاقت ور اور مضبوط تھیں تمدن وتہذیب کے لحاظ سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں ۔ مگر تکذیب کی وجہ سے جب اللہ کا عذاب آگیا تو کیا ان کی قوت اور مادی ترقی ان کو بچا سکی ۔ بتلاؤ۔ کہ آج وہ قومیں کہا ہیں ؟