غُلِبَتِ الرُّومُ
) رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے
ف 2: بات یہ تھی کہ مشرکین مکہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عناد تھا ۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے ۔ کہ آپ کو اور آپ کی جماعت کو کسی طرح کی کامیابی حاصل ہو ۔ بلکہ وہ اس درجہ متعصف تھے کہ صریحات پرستی اور حمیمیت کی تائید کرتے کیونکہ یہ چیزیں اسلام کی روح کے بالکل متضاد واقع ہوئی ہیں اور ہر اس واقعہ سے خوش ہوئے ۔ جس کا تعلق مسلمانوں کی دل گرفتگی اور آزردگی سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ جب ابرائیوں اور رومیوں میں جنگ چھڑی اور محبوسیت کو عیسائیت پر فتح ہوئی ۔ تو ان لوگوں نے مسرت واجتہاج کے شادیانے بجائے ۔ اس لئے نہیں ۔ کہ ایرانیوں سے فی القواعہ انہیں کوئی وابستگی تھی ۔ بلکہ محض اس لئے کہ اسلام سے دشمنی تھی ۔ اور ایرانی بالطیع مسلمانوں سے بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ دور تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح یہ لوگ اہل کتاب پر غالب آگئے ہیں اسی طرح ہم بھی مسلمانوں پر تسلط جمالیں گے * سورہ روم کی ان آیات میں مشرکین کو متنبہ کیا ہے کہ تمہیں اس عارضی فتح پر مغرور نہیں ہونا چاہیے ۔ عنقریب یہ فتح وکامرانی شکست اور ناکامی میں تبدیل ہونے والی ہے ۔ پھر تمہاری پوزیشن کیا ہوگی ۔ اللہ کے ہاں یہ بات مددات میں سے ہے ۔ کہ ایرانیوں کا جاہ وحشم ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا محض تمہاری ہمدردیاں ان کو عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکتیں ۔ اگر تم اس واقعہ پر ضرور خوش ہونا چاہیے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب مسلمان خوش ہونگے اور ایوان عجم پر رومی پرچم لہرارہا ہوگا ۔ چانچہ نو برس بعد ایک طرف تو مسلمانوں نے مقام جد پر چھٹاوید قریش کی جڑ کاٹ دی اور دوسری طرف روسیوں کو ایرانی شان وشکہ پر نمایاں غلبہ حاصل ہوا ۔ اور مکے والوں کے گھر صف ماتم بچھ گئی * غور طلب بات یہ ہے کہ کہ کیا اس طرح کی پیش گوئی بغیر تائید الٰہی کے ممکن ہے * حالات یہ ہیں کہ مسلمان ایرانی اور رومی طاقت اور قوت سے تو واسطہ ہی نہیں رکھتے ۔ ملک میں اخارات نہیں ہیں ۔ کوئی ذریعہ نشرواشاعت کا ایسا نہیں ہے جس سے اندازہ ہوسکے کہ آئندہ کیا ارادے ہیں ۔ مکہ کی طرف واقعہ ہے اور ایران وروم کے مرکزوں سے بہت دور ہے ایسی صورت میں ایک صحیح پیشگوئی کرنا بجز الہام اور تائید خداوندی کے بالکل محال ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ الہامی کتاب خدا کا کلام ہے * اس پیشگوئی سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ نفیس پیشگوئی کے لئے یہ ضروری ہے ۔ کہ بالکل مخالف یا نامعلوم حالات میں کی جائے ۔ ورنہ ہر مستند شخص کے اختیار میں ہے ۔ کہ وہ واقعات کی روشنی میں آئندہ کے لئے کچھ کہہ سکے *۔