وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اے نبی) آپ اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اس (کتاب) کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ایسا ہوتا تو یہ باطل پرست لوگ ضرور کسی نہ کسی شبہ میں پڑتے (١٨)۔
امی نبی (ﷺ) (ف 2) اس آیت میں قرآن حضور (ﷺ) کی شان امت کو پیش کرتا ہے کہ وہ شخص جس نے توحید کے اسرار ورموز کو وا شگاف طور پر بیان کیا جس نے انسانوں کی صحیح راہنمائی کی ۔ جس نے مذہب کی مشکل گتھیوں کو آن کی آن میں نہایت آسانی سے سلجھادیا ۔ جس نے نفس عقل کو حیران وششدر کردیا ۔ جس کی حکمت حکمت بالغہ جس کافرمان فرمان فطرت ۔ جو دنیا جہان کا محبوب ہے ۔ جس کے ادنی خادموں کی غلامی فلسفہ نے صدیوں تک کی ۔ جس نے قرآن ایسی عظیم الشان کتاب پیش کی جس نے قیامت تک کے لئے دماغوں کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر تمہیں اس کی عظمت میں کلام ہے تو آؤ اس کا مقابلہ کرکے دیکھ لو ۔ وہ امی تھا ۔ اس نے کسی شخص کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا ۔ وہ ذہن وقلب کے لحاظ سے کسی انسان کا ممنون احسان نہیں ۔ ورنہ کہنے والوں کو موقع ملتا کہ یہ کلام ان کا اپنا کلام ہے ۔ جو اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔