إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
اللہ (کا کلام جو انسانوں ککو ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہتا ہے) اس بات سے نہیں جھجکتا کہ کسی (حقیقت کے سمجھانے کے لیے کسی حقیر سے حقیر کی) مثال سے کام لے۔ مثلاً مچھر کی، یا اس سے بھی زیادہ کسی حقیر چیز کی پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ (مثالیں سن کر ان کی دانائی میں غور کرتے ہیں اور) جان لیتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہے ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ لیکن جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو وہ (جہل اور کج فہمی سے حقیقت نہیں پا سکتے۔ وہ) کہتے ہیں بھلا ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بس کتنے ہی انسان ہیں جن کے حصے میں اس سے گمراہی آئے گی اور کتنے ہی ہیں جن پر اس (کی سمجھ بوجھ سے) راہ (سعادت) کھل جائے گی۔ اور (خدا کا قانون یہ ہے کہ) وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہی لوگوں کو جو (ہدایت کی تمام حدیں توڑ کر) فاسق ہوگئے ہیں
خائب (ف ١) وخاسر لوگ : فلاح وسعادت کی راہ ایمان وعمل کی راہ ہے ۔ وہ جو فاسق ہیں اللہ کی حدود کی پرواہ نہیں کرتے ، ان کے لئے خسارہ ہے ۔ نہ دنیا میں وہ کامیابی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے ، منافق کی تین علامتیں ہیں : ۔ (ا) نقض عہد ، یعنی خدا کے بنائے ہوئے اور بندھے ہوئے قوانین کا توڑتا ۔ (ب) علائق ضرورت سے قطع تعلق یعنی ان تمام رشتوں سے تغافل جو انسانی فلاح وبہبود کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ (ج) فساد فی الارض ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ رب فاطر کے بتائے ہوئے قوانین کا خیال نہیں رکھتے جو اپنوں سے دشمنوں کا سا سلوک کرتے ہیں ، جو ساری زمین میں فتنہ وفساد کی آگ کو روشن رکھتے ہیں ، ان سے کوئی بھلائی کرے گا اور وہ کس طرح ایک سعادت مند انسان کی زندگی بسر کرسکیں گے ۔