وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور نہ آپ طور کی جانب موجود تھے جب ہم نے موسیٰ کو ندا دی کہ مگر یہ تیرے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والانہیں آیا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں (١١)
آنحضرت (ﷺ) کی نبوت پر ایک دلیل (ف 2) ان آیات میں واقعات اور قصص کی اس تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے بطور اعجاز کے پیش کیا ہے ۔ اور حضور (ﷺ) کی نبوت پر دلیل ٹھہرایا ہے ۔ ارشاد ہے کہ جب موسیٰ کو جبل طور کے غربی جانب مخاطب کیا گیا اور اس کو تورات دی گئی تو آپ اس وقت موجود نہ تھے اور نہ آپ مدین میں مقیم تھے ۔ جب حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب میں ملاقات اور گفتگو ہوئی ۔ تو آپ اس وقت بھی حاضر نہ تھے ۔ اور نہ اس وقت موجود تھے ۔ جب کہ ہم نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور خلعت نبوت سے نوازا ۔ پھر جو آپ یہ واقعات مبصرانہ تفصیل کے ساتھ ذکر کررہے ہیں ۔ تو کیونکر ؟ ارشاد ہے کہ یہ محض ہمارے فضل ورحمت سے تمہیں یہ علم اور معارف عطا کئے گئے ہیں ۔ تاکہ لوگوں کو راہ راست پر گامزن کرو۔ اور گناہ کے نتائج و عواقب سے آگاہ کرو کہ اس سے قبل ان کے پاس کوئی نذیر نہیں آیا یعنی قرآن حکیم میں اقوام امم کے حالات کو عصمت اور تفصیل کے ساتھ ذکر کرنا ۔ اور مشکل واقعات کی گتھیوں کو سلجھانا حالانکہ ایام وقرون نے صدہا پردے درمیان میں حائل کررکھے ہیں یقینا اعجاز ہے ۔ اور آنحضرت (ﷺ) کی نبوت پر زبردست دال ہے۔ پھر اس چیز پر بھی غور کیجئے کہ آپ امی اور ان پڑھ ہیں ۔ اور خود تورات میں بھی واقعات کو اس رنگ میں ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ ان حالات میں اگر ایک شخص قوموں کے عروج وزوال پر بحث کرتا ہے اور ان کے اسباب وعمل بیان کرتا ہے اور ان کی تہذیب وتمدن کے خط وخال دکھاتا ہے ۔ تو پھر اس میں کیا شبہ رہ جاتا ہے کہ تائید غیبی یقینا اس کے ساتھ ہے ورنہ انسانی طاقت و وسعت میں تو یہ امکان نہیں ۔