سورة القصص - آیت 32

اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالو وہ اس کے اندر سے چمکتا ہوا نکلے گا اور اسے تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا، اپنے بازو کو سمیٹ لو، تمہارے خدا کی طرف سے فرعون اور اس کی قوم کے لیے دونشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عدالت الٰہی کا قانون توڑ دیا اور اللہ کی اطاعت سے باہر ہوگئے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تجلیات ف 1: حضرت شعیب کے گھر سے موسیٰ (علیہ السلام) جس وقت رخصت ہوتے ہیں ۔ اس وقت ان کی بیوی ان کے ساتھ تھیں ۔ جنگل میں جارہے تھے ۔ تاریکی اور سردی تھی ۔ آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ موسیٰ نے دور سے دیکھا ۔ کہ آگ کا شعلہ نظر آرہا ہے ۔ بیوی نے کہا ۔ میں نے آگ دیکھی ہے ۔ ذرا دور ہے ۔ میں جاتا ہوں ۔ شاید آگ مل جائے اور کچھ پتہ لگے تم یہیں ٹھہرو ۔ یہ کہہ کر موسیٰ آگے بڑھے دیکھا تو وہاں آگ نہ تھی ۔ تجلیات الٰہیہ کا ظہور تھا * ارشاد ہوا ۔ کہ موسیٰ میں تمہارا خدا ہوں ۔ ساری کائنات کارب ہوں ۔ غرض یہ تھی ۔ کہ موسیٰ کو عہدہ نبوت پر سرفراز کیا جائے ۔ ان کو معجزات عطا کئے جائیں ۔ اور بتایا جائے کہ اب تمہاری زندگی کا اصل دور شروع ہوتا ہے ۔ یہ تجلی تو محض مخاطب کرنے کا ایک ذریعہ تھی * تجلیات کی حقیقت تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے ۔ مختصرا یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ جس طرح الفاظ معنی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح تجلیات اللہ کے منشا کے اظہار کی تعبیرات ہیں ۔ اور بس * ارشاد ہوا کہ یہ عصا جو تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ زمین پر ڈال دو ۔ اور جب موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل کی ۔ تو دیکھا کہ لٹھ اژدہا بن گیا ہے ۔ اس پر وہ ڈرے اور ڈر کر بھاگے ۔ حکم ہوا ۔ کہ ڈرتے کیوں ہو ۔ واپس آجاؤ۔ تم بالکل محفوظ اور مامون ہو ۔ دوسرا حکم ہوا ۔ کہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو ۔ اور پھر نکالو ۔ اور دیکھو کہ کس قدر سفید براق ہوگیا ہے * یہ دو معجزے ہیں جو تمہیں دیئے گئے ہیں ۔ یا یوں سمجھ لو ۔ کہ فرعون کے طلسم کبرہ غرور کو توڑنے کے لئے دو بڑی بڑی دلیلیں ہیں ۔ ان کو لے کر اس کے اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ کہ وہ فسق وفجور کو اپنا وطیرہ و خصلت بنا چکے ہیں ۔ تم ان کی اصلاح کرو * ان دو معجزوں سے ایک تو یہ مقصود تھا کہ بےسروسامان موسیٰ کا دل مضبوط ہوجائے اور وہ معلوم کرلے ۔ کہ اللہ کی مدد میرے شامل حال ہے ۔ اور دوسری جانب فرعون اور اس کی قوم کو یہ محسوس ہو کہ جس طرح یہ خشک لکڑی اژدہا بن سکتی ہے ۔ اور گوشت پوست کا ہاتھ براق اور چمکیلا ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح بنی اسرائیل جیسی بےضرر قوم ہمارے لئے خطرہ اور خوف ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور اس کا نصیبہ چمک سکتا ہے ۔ اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہے * حل لغات :۔ من غیر سوء ۔ یعنی مبروص نہ ہونا ، جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے *۔