سورة آل عمران - آیت 35

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(چنانچہ اللہ کے دعا سننے کا وہ واقعہ یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا تھا کہ : یا رب ! میں نے نذر مانی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے ہر کام سے آزاد کر کے تیرے لیے وقف رکھوں گی۔ میری اس نذر کو قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تین قصے : (ف ١) رسالت مآب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یہودیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ اسرائیل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کیوں بنی اسرئایل اسمعیل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے منتخب کیا ، یہودی چونکہ حد درجہ ظاہر پرست تھے ، اس لئے وہ اس خرق عادت کو باور نہ کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذیل میں تین قصے بیان کئے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مصالح کو کوئی نہیں جانتا اور اس قسم ونوع کے خوارق اکثر پیش آتے رہتے ہیں اور یہ کہ خود یہودی ان واقعات کو تسلیم کرتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سلسلہ اسماعیلیہ میں ہونا بھی قابل اعتراض نہ سمجھیں ، نبوت اللہ کی دین ہے ، جب تک اسرائیل اس بار امانت کو اٹھانے کے اہل رہے ‘ اللہ نے انہیں میں سے انبیاء بھیجے ، جب ان میں یہ اہلیت نہ رہی تو بنی اسمعیل کو اس شرف سے نوازا گیا ۔ یہ پہلا قصہ حضرت مریم علیہا السلام کی نذر کا ہے ، ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں فرزند نرینہ بخشیں تو وہ یروشلم کی خدمت کے لئے اسے وقف کردیں ، مگر اللہ تعالیٰ کا یہ رسم توڑنا مقصود تھا ، اس لئے بجائے لڑکے کے لڑکی پیدا ہوئی اور اسے خلاف روایات یہود بہت المقدس کی خدمت کے لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپرد کردیا گیا یہ قدیم روایات کے خلاف ایک خرق ہے ۔ دوسرا قصہ حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ہے یعنی حضرت یحیٰ بھی اس وقت پیدا ہوئے جبکہ بظاہر کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی یہ دوسرا خرق ہے ، تیسرا قصہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت کا کہ بلا باپ پیدا ہوئے یہ تیسرا خرق ہے ۔ جب اتنے خوارق کو مان لینے میں یہودیوں کو کوئی تامل نہیں ہے تو پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صرف اس لئے کیوں انکار کرتے ہیں کہ وہ مقررہ عادت کے خلاف تشریف لائے ہیں کہ کیا رسم عادت مصالح کے تابع نہیں اور کیا اللہ ہی مصالح کو بہتر طریق پر نہیں جاوے پھر کیا وجہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کردیا جائے ، ان آیات میں پہلے قصے کی توضیح کی ہے کہ کس طرح حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے منت مانی اور کس طرح حضرت مریم علیہا السلام زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں آئیں ۔ حل لغات : محررا : آزاد ۔