قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
تقرب الہی کا واحد ذریعہ : (ف ١) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قول وفعل سے اللہ کے بندوں میں اللہ کی محبت پیدا کردیں اور گم کردہ راہ لوگوں کو جادہ مستقیم پر ڈال دیں ، وہ انسانوں کو ہدایت ورہنمائی کا پہلا اور آخری وسیلہ ہیں ، اس لئے ان سے قطع نظر کسی طرح جائز ودرست نہیں ۔ اس آیت میں محبت الہی کے دعوے داروں کو اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اتباع سید الابرار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے بجز اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کوئی طریق نہیں ، قیامت تک کے لئے محبوبیت ومقبولیت کا تاج فرق اقدس کے سوا اور کسی کے سر پر زیب نہیں دیتا ، وہ جو تقرب وتالف کے مدارج طے کرنا چاہتے ہیں وہ آئیں اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہوں پر گامزن ہوں کہ اس کے سوا منزل تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ نہیں اسلام کی شاہراہ کے عام کے لئے وا ہوجانے کے کے بعد رشد وہدایت کے تمام راستے مسدود ہیں ، سلوک ومعرفت کے تمام مروجہ طریقے غلط ہیں اور گمراہ کن ہیں ‘ اگر ان میں اطاعت واتباع کا خیال نہیں رکھا گیا اور خدا رسی کے تمام ذرائع باطل ہیں ‘ اگر ان میں مشکوۃ نبوت کی روشنی نظر نہیں آتی ۔ اگر اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ دلوں میں موجزن ہے تو پھر اللہ کی محبت ومغفرت بہرحال شامل حال ہے اور اگر اس سے محرومی ہے تو یہ جان لو کہ (آیت) ” فان اللہ لا یحب الکافرین “۔ حل لغات : امد : فاصلہ ۔ عباد : جمع عبد ۔ بندے اصطفے : مصدر اصطفا ۔ انتخاب ، چننا ۔