سورة النمل - آیت 73

وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار انسان کے لیے بڑاہی فضل رکھنے والا ہے (کہ ہر حال میں اصلاح وتلافی کی مہلت دیتا ہے) لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) بیشتر ایسے ہیں کہ اس کے فضل و رحمت سے فائدہ اٹھانے کی جگہ اس کی ناشکری کرتے ہیں (١٣)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منکرین کے لئے وعدہ عذاب کی تکمیل ف 1: منکرین نے جب یہ سنا کہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے اور سب لوگوں کو عالم موت سے نکال کر عالم حشر میں اٹھا کر کھڑا کیا جائیگا ۔ تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ۔ یہ کیونکر ممکن ہے : کیا ہم اور ہمارے باپ دادا دوبارہ زندگی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے ! یہ تو محض افسانہ معلوم ہوتا ہے اور اس قسم کے افسانے ہم پہلے بھی سن چکے ہیں ۔ اور اس کے بعد کمال شوخ چشمی سے کہنے لگے کہ وہ وعدہ عذاب کب آئے گا ! جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ مکذبین کے لئے مقدر ہے اور جس کے لئے اقوام وباطل کی تاریخ ہم سے بیان کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے ۔ فانظروا کیف کان عاقبۃ المجرمین ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ وہ وعدہ عذاب بہت قریب ہے تم عجلت نہ کرو ۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ حتی الامکان اس کے بندے اس کے غضب وغصہ کا باعث ہوں ۔ وہ ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیتا ہے ۔ ہاں اگر بندوں کو اسی بات پر اصرار ہو کہ عذاب آئے ۔ اور ضرور آئے ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی تازیب واصلاح کے لئے ضرور عذاب بھیج دیتے ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ والوں کی سرکشیاں حد سے بڑھ گئیں ۔ اور انہوں نے طے کرلیا ۔ کہ ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جائے گا ۔ تو معرکہ بدر کے سامان پیدا ہوگئے ۔ اور مشرکین نے اس معرکہ میں سخت شکست کے سامان پیدا ہوگئے ۔ اور بصد حسرت ویاس باقی ماندہ واپس لوٹے *۔ حل لغات : ماتکن ۔ کنان سے ہے ۔ معنی چھپاتا ۔ مستور رکھنا *۔