سورة آل عمران - آیت 12

قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر !) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان سے کہہ دو "وہ وقت دور نہیں جب (آل فرعون کی طرح) تم بھی (غلبہ حق سے) مغلوب ہوجاؤ گے اور جہنم کی طرف ہنکائے جاؤ گے۔ اور (جس گروہ کا آخری ٹھکانا جہنم ہو، تو اس کا ٹھکانا) کیا ہی برا ٹھکانا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ایمان کی فتح اور کفر کی شکست : (ف ٢) (آیت) ” قل للذین کفروا ستغلبون “ میں یہود کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ تم عنقریب مسلمانوں کے غلبہ واقتدار کے قائل ہو جاؤگے ، تمہیں تمہاری بستیوں سے نکال دیا جائے گا اور تمہارے باغات ویران کر دئے جائیں گے ، یہ اس لئے یہود کو اپنے مال ودولت پر بہت نازل تھا اور وہ قوت وعظمت کے نشہ میں سرشار تھے ، ضرورت تھی کہ انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا جائے ، ضمنا اس آیت میں کفر کی دائمی مغلوبیت کی طرف اشارہ کردیا ، یعنی علو واقتدار ‘ بلندی وقوت صرف ایمان کے حصہ میں آئی ہے ، کفر ہمیشہ ہمیشہ پست اور ذلیل رہے گا ، چنانچہ ان کے سامنے بدر کا نقشہ رکھا ۔ مسلمان کل تین سوتیرہ تھے ، ستر اونٹ ‘ دو گھوڑے ‘ سات زرہیں اور آٹھ تلواریں زاد حرب سمجھئے ، دوسری طرف کفار کا لشکر جرار پوری تیاری کے ساتھ صف آراء تھا ، جس کے تمام سرداروں نے اس فراغ دلی اور فیاضی کے ساتھ حصہ لیا تھا ، فخر وغرور تکبر وتمکنت اور قوت وکثرت کا یہ طوفان مسلمانوں کو ” مشت غبار “ کی طرح منتشر کردینا چاہتا تھا ، کفر وضلالت کے تاریک اور سیاہ بادل آمادہ تھے کہ خرمن ایمان وبصیرت پر بجلیاں گرائیں ، کفر و ایمان کی یہ پہلی اور خطرناک سازش تھی ، ایمان کی بےبضاعتی اور باب کفر کے لیے باعث صد خندہ تھی شیطان ہنس رہا تھا ، اور خوش تھا کہ اللہ والے آج مٹنے کو ہیں ، مگر رب ذوانتقام کی ظاہر فوجیں مسلمانوں کے ساتھ تھیں ، تائیدغیبی نے ان کے دلوں کو فولاد بنا دیا ، وہ لڑے اور اس بےجگری کے ساتھ کہ کفر بایں کثرت وحشمت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوا ، ایمان ہمیشہ کے لئے سربلند ہوگیا اور کفر سرنگوں ، کیا یہ واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایمان بجائے خود فاتح ومنصور ہے اور کفر مغلوب ومقہور ۔