سورة البقرة - آیت 283

وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر تم سفر میں ہو اور (ایسی حالت ہو کہ باقاعدہ لکھا پڑھی کرنے کے لیے) کوئی کاتب نہ ملے، تو اس صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز گرو رکھ کر اس کا قبضہ (قرض دینے والے کو) دے دیا جائے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ تم میں سے ایک آدمی دوسرے کا اعتبار کرے، تو جس کا اعتبار کیا گیا ہے (یعنی جس کا اعتبار کرکے گرو کی چیز اس کی امانت میں دے دی گئی ہے) وہ (قرض کی رقم لے کر مقروض کی) امانت واپس کردے اور (اس بارے میں) اپنے پروردگار (کی پوچھ گچھ) سے بے خوف نہ ہو۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ گواہی چھپاؤ (اور کسی کے خوف یا طمع سے حقیقت کا اظہار نہ کرو) جو کوئی گواہی چھپائے گا، وہ اپنے دل میں گنہگار ہوگا (اگرچہ بظاہر لوگ اس کے جرم سے واقف نہ ہوں اور اسے بے گناہ سمجھیں) اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) ان آیات میں رہن کی اجازت دی ہے ، اس لئے ناواقفی کے وقت اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔ البتہ یہ ہدایت کی ہے کہ اگر یونہی اعتبار پر کوئی شخص قرض دے دے تو مدیون کو چاہئے کہ اس کے حسن سلوک کا خیال رکھے اور اس کی پائی پائی چکا دے ۔ اس کے بعد عام ہدایت ہے کہ کتمان شہادت اسلام میں درست وجائز نہیں کیونکہ اس سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ حل لغات : آثِمٌ: مصدر اثم ، مجرم ۔ اثِمٌ: بمعنی گناہ ۔