سورة البقرة - آیت 280

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ایسا ہو کہ ایک مقروض تنگ دست ہے (اور فوراً قرض ادا نہیں کرسکتا) تو چاہیے کہ اسے فراخی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے۔ اور اگر تم سمجھ رکھتے ہو، تو تمہارے لیے بہتری کی بات تو یہ ہے کہ (ایسے تنگ دست بھائی کو) اس کا قرض بطور خیرات بخش دو

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

رحم دل مسلمان : (ف2) اس سے پہلے کی آیت میں اصل مال لینے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ ﴿لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾ یعنی مسلمان نہ تو بحیثیت ظالم کے اللہ کو پسند ہے اور نہ بحیثیت مظلوم کے ، نہ تو وہ اپنا نقصان کرے ‘ نہ دوسرے کا ، یعنی جس طرح ظالم بننا اور سود لینا گناہ ہے ‘ بالکل اس کے متوازی سود دینا گناہ ہے ، کیونکہ مسلمان کو عادل اور ایک بہترین نمونہ بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس کی زندگی کا مقصد دوسروں سے کہیں بلند ہے ، وہ اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ خیر محض کا درس دے اور اپنے اعمال سے دوسروں کے لئے ایک ممتاز شاہراہ قائم کرے ، یہی وجہ ہے کہ اسے معاملات میں نہایت صالح رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسے کہا گیا ہے کہ حسن معاملہ بھی نصف دین ہے ، اس آیت میں فرمایا کہ اگر رؤس اموال واپس کرنے میں انہیں دقت ہو تو تم فراغت وکشائش تک انتظار کرو ۔ یعنی اسے موقع دو کہ وہ بآسانی قرض اتار دے ، مقروض کو تنگ کرنا مسلمان کے بلند اخلاق کے منافی ہے اور معاف کردینا تو بہت زیادہ بہتر ہے ، ﴿إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾میں اشارہ ہے اس روحانی لذت کی طرف جو معاف کردینے کے بعد مسلمان کو حاصل ہوتی ہے اور اس اجر عظیم کی طرف جس کا وہ مستحق ہوجاتا ہے ۔ اس آیت میں جس رحم دل مگر سرمایہ دار مسلمان کا تخیل خدا نے پیش کیا ہے وہ دنیا کے لئے درجہ عافیت پسند اور مفید ہو سکتا ہے کیا ان ہدایات کے بعد بھی کسی دوسری تعلیم کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔ حل لغات : ذُوعُسْرَةٍ: تنگ دست ۔ مَيْسَرَةٍ: فراغت ۔