سورة النور - آیت 55

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں اور ان کے عمل بھی اچھے ہیں ان سے اللہ کا وعدہ ہوا کہ زمین کی خلافت انہیں عطا فرمائے گا (٤٢) اسی طرح جس طرح ان لوگوں کو دے چکا ہے جوان سے پہلے گزر چکے ہیں نیزا یسا بھی ضرور ہونے والا ہے کہ ان کے دین کو کہ ان کے لیے پسند کرلیا گیا ہے ان کے لے جمادے اور خوف وخطر کی زندگی کو امن وامان کی زندگی سے بدل دے وہ (بے خوف وخطر) میری بندگی میں لگے رہیں گے اور میرے ساتھ کسی ہستی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے پھر جو کوئی اس کے بعد ناشکری کرے تو ایسے ہی لوگ ہیں جو نافرمان ہوئے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

استخلاف فی الارض کا وعدہ : (ف ٢) دین کے معنے اسلامی نقطہ نگاہ سے کامیابی کے کامل پروگرام کے ہیں ، اس لئے جو لوگ صحیح معنوں میں مومن ہوں گے اور ان کے اعمال اللہ کے تجویز کردہ پروگرام کے ماتحت ہوں گے ، ان کا دنیا آخرت میں کامیاب ہوتا یقینی اور حتمی ہے ، اس آیت میں قرآن نے اسی اصول کی جانب رہنمائی فرمائی ہے ارشاد ہے کہ مومنین سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں خلیفہ فی الارض یعنی ملک کا حاکم بنایا جائے گا انہیں دنیا کی تمام نعمتوں سے نوازا جائیگا ، اور ان کے سر پر تاج خسروی رکھا جائے گا ، اور ان کیلئے یہ مقدمات میں سے ہیں کہ جب تک اسلام کی پوری پابندی کرتے رہیں ، اس وقت تک دنیا کی قیادت کریں سب سے بلند رہیں ، اور اللہ کے فضل سے ساری کائنات پر حکومت کریں ، کیونکہ اسلام کے لائحہ عمل میں ایسے رفعت آگین اور تفوق آفرین اصول داخل ہیں ، کہ ان عمل پیرا ہونے کا یہی قطعی اور منطقی نتیجہ ہے جو مذکور ہوا اور یہ صرف نظریہ ہی نہیں ، بلکہ اسلام کی ساری تاریخ اس پر شاہد عدل ہے دیکھ لیجئے جب تک مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان رہے ان کے دلوں میں احساس عزت کا جذبہ موجزن رہا ، اسلام کے حاکمانہ اصول ان کی زندگی میں کار فرما رہے ، اور جب تک انہوں نے قیادت ورہنمائی کے منصب جلیل پر اپنے کو فائز رہنے کا حق دار سمجھا ، تب تک حاکم رہے ، عزت واقتدار کے مالک رہے ، اور رونق ورنگ وتاج رہے اور جب تک مذہبی کے معنی ان کے ہاں خشک وقیود اور بےروح رسموں کے قرار پائے ۔ اور محض انتساب کو باعث فخر و مباہات سمجھا گیا ۔ تو اس وقت سے ذلت و ادبار کا دور مشؤم شروع ہوا ۔ جس نے زیر دستوں کو زبردست بنا دیا جس کی وجہ سے جہالت تعلیم سے بدل گئی ، اور بد اخلاق قوم سرخیل روحانیات ٹھہری یہی تو وہ اسلام ہے جس کی وجہ سے مٹھی بھر مسلمان کائنات پر چھا گئے اور لوگوں کی راہ نمائی کرنے لگے پھر آج اگر ہم میں ذہنی افلاس اور تسطل موجود ہے ، تو اسلام اور قرآن اس کا ذمہ دار نہیں بلکہ اس کی ساری ذمہ داری ہمارے اپنے اعمال اور کردار پر عائد ہوتی ہے ۔