سورة النور - آیت 26

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہوئیں، گندے مرد گندی عورتوں کے لیے پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے (ایسا نہیں ہوسکتا کہ گندگی اور پاکی ایک دوسرے سے میل کھائیں) ایسے پاک افراد ان باتوں سے مبرا ہیں جو لوگوں نے ان کے بارے میں کہی ہیں، ان کے لیے (آخڑت میں) بخشش ہے اور (دنیا می) عزت کی معیشت (١٤)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ازدواجی تعلقات کیلئے فریقین کو دیندار ہونا لازم ہے : (ف ١) قرآن حکیم کے نزدیک ازدواجی زندگی کیلئے سب سے زیادہ ضروری چیز جذبہ دینداری اور اخلاق کی پاکیزگی ہے حسن وجمال اور دوسری خصوصیات محض ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ، کیونکہ جو تعلقات محض حسن وجمال یا مال ودولت کیوجہ سے قائم ہوں ، دیرپا اور مضبوط نہیں ہوتے ، ان کا تعلق عارضی ہوتا ہے جہاں امیری یا بےنیازی ہوئی فریقین ایک دوسرے سے الگ ہوگئے مگر جو تعلقات کہ اخلاق کی بلندی اور کیرکٹر کی اعلی بنیاد پر قائم ہوں اور روز بروز اور مستحکم ہوتے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ صالح اور پاکباز ہیں وہ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ انکی رفیقہ حیات بھی صالح ہو ، اور جو ناپاک اور گندے خیالات کا انسان ہوتا ہے وہ اپنے لئے اس عورت کو پسند کرتا ہے جو اس کے قماش اور مذاق کے عین مطابق ہوتی ہے ۔ الخبیثت اور الطیبت : کا مفہوم اس بات پر دال ہے کہ ازواج مطہرات ہبہمہ وجوہ الزامات سے پاک ہیں کیونکہ بدچلن عورتیں پاکباز مردوں کے پاس نہیں رہ سکتیں ، اسی طرح بااخلاق اور عفیف مرد فاحشہ عورتوں سے تعلق ازدواجی قائم نہیں کرسکتا ، قرآن نے اس آیت میں دراصل منافقین کو کوتاہی نظر اور بداخلاقی کی مذمت کی ہے ، کیونکہ منافقین کو چاہئے تھا کہ یہ تو دیکھتے کہ وہ کس ذات عصمت آب کے متعلق بیہودہ گوئی کا ارتکاب کر رہے ہیں ، واقعہ کے امکانات سے بحث کرتے اور سوچتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیونکر یہ گوارر کرسکتے تھے ، کہ اپنے حرم میں ایسی عورتوں کو جگہ دیں ، جو اخلاق کے لحاظ سے بلند نہ ہوں ۔