سورة المؤمنون - آیت 88

قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو ان سے پوچھ اگر تم جانتے ہو تو بتلا وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمام چیزوں کی بادشاہی ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور کوئی نہیں جو اس سے اوپر پناہ دینے والا ہو؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) غرض یہ ہے کہ گو دل ودماغ شرک اور بت پرستی کے غبار سے اٹ جائے مگر توحید کے نقوش ان میں ضرور موجود رہتے ہیں ، کیونکہ توحید فطرت ہے توحید دل کی آواز ہے ، اور توحید انسانیت ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ اگر ان بت پرستوں سے آپ پوچھیں گے کہ اس زمین اور اس پر بسنے والے لوگوں کا مالک کون ہے ؟ سات آسمانوں اور عرش عظیم کا پروردگار کون ہے ؟ ہر چیز پر کس کی حکمرانی ہے ؟ اور کس کے ہاتھ میں ہر وقت تمام اختیارات ہیں کہ وہ جس کو چاہے پناہ دے اور جس کو چاہے محروم رکھے ، تو وہ بےاختیار پکار اٹھیں گے کہ اللہ ہی ان صفات سے متصف ہے ، قرآن پوچھتا ہے کہ اگر یہ جواب تمہاری نظروں میں صحیح ہے ، تو پھر تم کیوں غور وفکر سے کام نہیں لیتے ؟ تمہارے دلوں میں کیوں پرہیزگاری اور تقوی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ؟ کہا عقل سلیم کو کھو بیٹھے ہو ، کہ بےوقوفوں کی طرح کائنات کے ذرہ ذرہ کے سامنے سجدہ کناں ہو ، تمہیں چاہئے کہ دل کے چشموں سے استفادہ کرو ، اور توحید کے سوتوں سے سیرابی حاصل کرو ، دل اور فطرت کی آواز کو سنو ، اور اس سچی اور حقیقی پکار پر کان دھرو ، تمہیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں ، خود اپنے اندر اپنی ہستی پر غور کرو ، تمہیں معلوم ہوگا ، کہ توحید پوری روشنی کے ساتھ جلوہ آراء ہے ۔ حل لغات : اساطیر : اسطورہ کی جمع ہے کہانی ، افسانہ ، خود ساختہ بات ، سخنے باطل ۔ ملکوت : اختیار ، بادشاہت ۔ یجار : پناہ عنایت کرتا ہے ۔