وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہم کسی جان پر ذمہ داری نہیں ڈالتے مگر اتنی ہی جتنی کی اس میں طاقت ہے (یعنی استعداد ہے) ہمارے پاس (ان سب کی حالت و استعداد کے لیے) نوشتہ ہے جو ٹھیک ٹحیک (حقیقت حال کے مطابق) حکم لگا دیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی جان کے ساتھ نا انصافی ہو۔
(ف2) اس آیت میں اسلامی اصول فقہ وتشریع کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ یہ بہت آسان اور سہل ہے ، اور اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو انسانی طاقت اور وسعت سے باہر ہو، بات یہ ہے کہ اسلام سے قبل جس قدر مذاہب موجود تھے سب میں ریاضات شاقہ کو عبادت قرار دیا گیا تھا ، اور یہ بتایا دیا تھا کہ تم جس قدر تکلیف اٹھاؤ گے اسی قدر اللہ تعالیٰ کو اپنے قریب پاؤ گے اسلام کہتا ہے یہ اصول غلط ہے ، عبادات کو اس قدر ہلکا پھلکا اور آسان ہونا چاہئے ، کہ ہر شخص برداشت کرسکے ، چنانچہ اسلام ایسا ہی آسان مذہب ہے جو رہبانیت اور شکر پسندی کو ناجائز قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خوشی اور مسرت کی عبادت زیادہ پسند ہے ایسی عبادت جو طبیعت پر بار اور بوجھ ہو بہتر نہیں ۔