سورة البقرة - آیت 267

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! جو کچھ تم نے (محنت مزدوری یا تجارت سے) کمائی کی ہو اس میں سے خرچ کرو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین میں پیدا کردیتے ہیں، اس میں سے نکالو، کوئی صورت ہو لیکن چاہیے کہ خدا کی راہ میں خیرات کرو تو اچھی چیز خیرات کرو۔ ایسا نہ کرو کہ فصل کی پیداوار میں سے کسی چیز کو ردی اور خراب دیکھ کر خیرات کردو (کہ بیکار کیوں جائے، خدا کے نام پر نکال دیں) حالانکہ اگر ویسی ہی چیز تمہیں دی جائے، تو تم کبھی اسے (خوشدلی سے) لینے والے نہیں مگر ہاں، (جان بوجھ کر) آنکھیں بند کرلو، تو دوسری بات ہے۔ یاد رکھو، اللہ کی ذات بے نیاز اور ساری ستائشوں سے ستودہ ہے (اسے تمہاری کسی چیز کی احتیاج نہیں، مگر اپنی سعادت و نجات کے لیے عمل خیر کے محتاج ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں پاکیزہ چیزیں دو گری پڑی اشیاء کا تصدق کسی طرح موزوں نہیں ۔ اس لئے کہ جب تک اللہ کی راہ میں دینے سے دل تکلیف محسوس نہ کرے نفس اور ضمیر میں ایک جنگ بپانہ ہو ، نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بخل دور ہو سکتا ہے ، یہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ رب السموت والارض ہے جس کے خزانے معمور ہیں ، ہمارے صدقات کا قطعا محتاج نہیں ، وہ تو غنی ہے ، بےنیاز ہے ، اس لئے تقاضا یہ ہے کہ خدا کی راہ میں دے کر ہمیں کیا ملتا ہے ؟ کیا طبعیت کا بخل دور ہوگیا ہے ؟ کیا دل میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آمادگی کا احساس بڑھ گیا ہے یا کیا ؟ پھر فرمایا کہ تم دنیا میں تحائف وصول کرتے ہو تمہیں بھی چیزیں دی جاتی ہیں تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ بہترین چیزیں تمہیں دی جائیں نقص اور نکمی چیز کو تم اپنے لئے ہرگز پسند نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ کے لئے تم معمولی اور غیر ضروری اشیاء کیوں پسند کرتے ہو ؟ جس چیز کی تمہیں ضرورت نہیں ، اس کی اللہ تعالیٰ کو کیا حاجت ہے ؟