سورة المؤمنون - آیت 12

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا (یعنی زندگی کی ابتدا مٹی کے خلاصہ سے ہوئی)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ایک تشریحی نکتہ : (ف ١) ان آیات میں قرآن حکیم نے انسانی پیدائش اور اس کے مختلف مراحل کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ کس حکمت ودانائی سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلعت وجود عطا فرما کر اس دنیائے عجائب میں بھیجا ہے اس روح وعقل کے مجرمجسمہ کا اٹھان اور درمیان کی حیرت نہ زار منزلیں کیا یہ سب کی سب چیزیں اللہ کی اعلی ترین قوت تخلیق پر دال نہیں ؟ یہاں لفظ علقہ : مگر قرآن حکیم نے جدید ترین جنسیاتی تشریح فرمائی ہے موجودہ حکماء کی رائے ہے کہ نطفہ میں زندگی کے جراثیم ہوتے ہیں اور وہ جراثیم رحم میں پہنچ کر بڑھنا شروع کردیتے ہیں اور آہستہ آہستہ جنس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ ہم اس قطرہ آب کو جراثیم میں تبدیل کردیتے ہیں ، یہ واضح رہے علقۃ کے معنے خون بستہ کے نہیں ، بلکہ جرثومہ حیات کے ہیں ، جو رحم کے ساتھ چپک جاتا ہے اور جنین کا باعث ہوتا ہے ۔ غور فرمائیے کیا آج سے چودہ سوسال قبل علم التشریحکی یہ تفصیلات بغیر امداد الہام ووحی کے ممکن نہیں ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان حقائق کے چہرے سے اس طرح پردہ کشائی کرے ، حالانکہ اس وقت ابتدائی علوم کا بھی وجود نہ تھا ، اور قوم محض خرافات وادہام میں مبتلا تھی ، ان آیات میں قرآن نے کچھ ایسی ترتیب اور حسن بیانی سے کام لیا ہے کہ بےاختیار منہ سے (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ نکل جاتا ہے ۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کاتب وحی عبداللہ یہ سن چکا ، تو بول اٹھا (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لکھ لو یہی الہام ہوا ہے اس کی بدبختی اور محرومی دیکھئے کہ یہ : اس کیلئے ٹھوکر اور گمراہی کا باعث ہوگیا ۔ اس نے سمجھا کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح صلاح ومشورہ سے قرآن کو ترتیب دیتے ہیں حالانکہ یہ کمال بلاغت ہے کہ معافی اور ترتیب آسودہ آنے والے الفاظ کا پتہ دے دیں ، غالب کہتا ہے ۔ دیکھنا تقریر کی لذت کو اس نے یہ کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے : چنانچہ حضرت فاروق (رض) حواس بلاغت کو سمجھتے تھے ، انہوں نے جب یہ آیات سنیں ، تو وہ بھی فتبارک اللہ “ بول اٹھے ، اور جب ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ قرآن کی آیت میں بھی اسی طرح ہے تو خوش ہوئے کہ میرے ذوق نے اللہ نے آیت کے ساتھ توافق کیا ہے ۔