سورة البقرة - آیت 19

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یا پھر ان لوگوں کی مثال ایسی سمجھو جیسے آسمان سے پانی کا برسنا کہ اس کے ساتھ کالی گھٹائیں اور بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک ہوتی ہے (فرض کرو دنیا پانی کے لیے بے قرار تھی۔ اللہ نے اپنی رحمت سے بارش کا سماں باندھ دیا۔ تو اب ان لوگوں کا حال یہ ہے بارش کی برکتوں کی جگہ صرف اس کی ہولناکیاں ہی ان کے حصے میں آئی ہیں) بادل جب زور سے گرجتے ہیں تو موت کا ڈر انہٰں دہلا دیتا ہے (اس کی گرج تو روک سکتے نہیں) اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے لگتے ہیں۔ حالانکہ (اگر بجلی گرنے والی ہی ہو تو ان کے کان بند کرلینے سے رک نہیں جائے گی) اللہ کی قدرت تو (ہر حال میں) منکروں کو گھیرے ہوئے ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حل لغات : صَيِّبٍ ۔ بارش ، پانی سے لبریز بادل ، رَعْدٌ۔ بجلی کی کڑک اور گرج ، بَرْقٌ، بجلی کی لمعاتی چمک ۔ أَصَابِعَ ، جمع اصبع ، انگلی ، کانوں میں انگلی کا اگلا حصہ ٹھونسا جاتا ہے جسے عربی میں انملۃ کہتے ہیں لیکن یہاں قرآن حمید اصابع کہہ کے گویا اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ بصورت مبالغہ رعد وگرج سے ڈرتے ہیں اور پوری انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے ہیں ۔ آذَان۔ جمع اذن ، کان ، صَوَاعِقِ ، جمع صاعقۃ ، بجلی یا کڑک ، وہ آواز جو ابر کے اعتکاک سے پیدا ہوتی ہے ۔ حَذَرَ۔ ڈر ، خوف ، اندیشہ ، مُحِيطٌ۔ گھیرے ہوئے ، اسم فاعل ہے ، اصل ہے احاطہ ۔ یعنی گھیرنا ، مقصد یہ ہے کہ یہ نافرمان اس کے علم میں ہیں اور ہر وقت اس کے قبضہ واختیار میں ہیں جیسے کوئی چاروں طرف سے گھر گیا ہو ۔