سورة الحج - آیت 31

حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

صرف اللہ ہی کے لیے ہو کر رہو، اس کے ساتھ کسی ہستی کو شریک نہ کرو، جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اس کا حال ایسا سمجھو جیسے بلندی سے اچانک نیچے گر پڑا، جو چیز اس طرح گرے گی اسے یا تو کوئی اچک لے گا یا ہوا کا جھونکا کسی دور دراز گوشت میں لے جاکر پھینک دے گا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

توحید سربلندی ہے ! : (ف ١) ان آیات میں پہلے تو بیان فرمایا ہے کہ قابل احترام احکام کو عزت تسلیم کی قطروں سے دیکھنا اللہ کے نزدیک بہتر ہے اور اس کے بعد مسائل حج کی طرف رجوع فرمایا ہے ۔ شبہ یہ پیدا ہوتا تھا ، کہ جب احرام کی حالت میں شکار کھیلنا درست نہیں ، تو شاید عام چارپائے بھی حرام ہوں ، اس شبہ کی جواب میں فرمایا کہ چارپائے تمہارے لئے حلال ہیں اور احرام ان کی حلت میں خلل انداز نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ جب تم اللہ کے احکام کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہو ، تو پھر تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بت پرستی کی نجات سے بچو ، اور جھوٹ سے پرہیز کرو ، اور خدا کی توحید کی سلسلہ میں عزیمت واستقلال کے ساتھ ثابت قدم رہو ۔ کیونکہ توحید فطرت ہے ، توحید سربلندی واعزاز ہے ، اور توحید رفعت وعلو ہے ، وہ لوگ جو توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرلیتے ہیں ، عقل اور عمل کے لحاظ سے گویا آسمان رفعت سے قعر مذلت کی طرف نزول کرتے ہیں ، جس طرح بلندی سے گر کر انسان محفوظ نہیں رہتا ہے ، اسی طرح مشرک بھی قوت وحیات کی تمام استعدادوں کو کھو دیتا ہے ، غور فرمائیے کہ یہ کس قدر صحیح حقیقت ہے کیونکہ شرک اور بت پرستی کے معنے یہ ہیں ، کہ مشرک اور بت پرست زیور انسانیت سے عاری ہیں ، انہوں نے عزت وخود داری کے تمام پاکیزہ جذبات کو اصنام کے بھینٹ چڑھا دیا ہے ، اس کے بعد شعائر اللہ کی تعظیم کا ذکر ہے ، فرمایا ہے کہ اس سے دلوں میں تقوی اور پرہیزگاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا اظہار کئی صورتوں میں ہوتا ہے ، اور ان میں ایک صورت شعائر کی بھی ہے ، شعائر الہیہ کی تعظیم سے دلوں میں ایک خاص قسم کی فرحت اور روحانی لذت محسوس ہوتی ہے ۔ (آیت) ” لکم فیھا منافع “۔ میں فیھا کی ضمیر ھدی یا قربانی کی طرف راجع ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت ماسبق میں شعائر سے مراد قربانی ہی ہے ۔ اس کے بعد اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ وقتا فوقتا ہم نے ہر قوم کے لئے ایک طریق عبادت وقربانی مقرر کیا ہے ، جس کی پروی ان کے لئے ضروری تھی اور سب کا مقصد یہ ہے کہ لوگ خدا پرستی کے جذبات دل میں پیدا کریں ، اور صرف ایک معبود حقیقی کے آگے جھکیں ۔ خدا پرستی اور خدا دوستی کے مختلف طریقے ہیں ، محض اس لئے مخالفین اسلام کو اسلام سے برگشتہ نہ ہوجانا چاہئے کہ ان کا طریق نیاز مندی دوسروں سے مختلف ہے ، بلکہ یہ غور کرنا چاہئے کہ جو کچھ پیش کیا جارہا ہے ، وہ کہاں تک قابل عمل ہے اور کہاں تک نتیجہ خیز ۔ حل لغات : الرجس : نجاست ، پلیدی ، حنفائ: حنیف کی جمع ہے بمعنی موحد ۔