يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
مسلمانوں ! ہم نے مال و متاع دنیا میں سے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اسے ( صرف اپنے نفس کے آرام و راحت پر نہیں بلکہ راہ حق میں بھی) خرچ کرو اور ہاتھ نہ روکو۔ قبل اس کے کہ (زندگی کی عارضی مہلت ختم ہوجائے، اور آنے والا دن سامنے آئے جائے۔ اس دن نہ تو (دنیا کی طرح) خرید و فروخت ہوسکے گی (کہ قیمت دے کر نجات خرید لو)، نہ کسی کی یاری کام آئے گی (کہ اس کے سہارے گناہ بخشوا لو) نہ ایسا ہی ہوسکے گا کہ کسی کی سعی و سفارش سے کام نکال لیا جائے، (اس دن صرف عمل ہی نجات دلا سکے گا) اور یاد رکھو، جو لوگ اس حقیقت سے) منکر ہیں، تو یقینا یہی لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔
(ف ١) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب قرآن حکیم کی متعدد آیات میں مزکور ہے جس کے دو معنی ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان دنیا میں دولت وسرمایہ کے لحاظ سے مستعفی ہو ، اس کی حیثیت دینے والے کی نہ ہو ۔ العید العلیا خیر من ید التغلی ۔ دوسرے یہ کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہو سکے ۔ وہ لوگ جو قومی طور پر فیاض نہیں ہوتے اور قومی ضروریات کو محسوس نہیں کرتے قطعی طور پر زندہ رہنے کی اہلیت اور استعداد نہیں رکھتے ، قیامت کے دن پورا پورا محاسبہ ہوگا نہ تو سرمایہ کام آسکے گا اور نہ کوئی دوستی ہی ، اور وہ لوگ جنہوں نے یہاں بخل وکفر سے کام لیا ہے ‘ وہاں بھی کسی بخشش اور رحمت کے متوقع نہ رہیں ، اس لئے کہ انہوں نے شرک وانکار کی وجہ سے اپنے آپ کو بالکل محروم کر رکھا ہے ۔ ” شفاعت “ کی قرآن حکیم نے عام طور پر نفی کی ہے اور مستقلا سارے قرآن مجید میں ایک جگہ بھی ” شفاعت “ کے مسئلہ کی تائید نہیں ملتی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی جس سفارش اور شفاعت کے قائل تھے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کے اقرار کرلینے کے بعد ہر معصیت اور ہر گناہ جائز ہے ، قرآن مجید اس نوع کی شفاعت کی کلیۃ نفی کرتا ہے ، البتہ اللہ کے نیک بندوں کو اذان دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی سفارش کرسکیں گے ۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پابند صوم وصلوۃ مسلمانوں کی سفارش کریں گے جن سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوگئے ہوں ۔