سورة الحج - آیت 2

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جس دن وہ تمہارے سامنے آموجود ہوگی اس دن (کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہے گا) دودھ پلانے والی مائیں اپنا دودھ پیتا بچہ بھول جائیں گی، حاملہ عورتیں (وقت سے پہلے) اپنا حمل گرا دیں گے، لوگوں کو تم اس حال میں دیکھو گے کہ بالکل متوالے ہوگئے، حالانکہ وہ متوالے نہیں ہوئے مگر اللہ کے عذاب کی ہولناکی بڑی ہی ہولناک ہے (جس نے انہیں متوالوں کی طرح بے ہوش کردیا)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

قرآن کی حیرت انگیز بلاغت : (ف1) قرآن حکیم میں یہ عجیب بلاغت ہے کہ وہ جس مضمون کو بیان کرتا ہے الفاظ میں اس کی تصویر کھینچ دیتا ہے ، یا یوں سمجھ لیجئے کہ الفاظ ایسے موزوں اور مناسب استعمال کرتا ہے کہ الفاظ کی صورت ہیئت بڑھ بڑھ کر مضمون کی غمازی کرنے لگتی ہے ، اور بسا اوقات وہ لوگ بھی جو عربی نہیں جانتے ، الفاظ کی ترکیب وساخت سے مضمون کی نوعیت سمجھ جاتے ہیں ۔ غور فرمائیے ان آیات میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہے ، اور پیرائیہ بیان ایسا ہے یا الفاظ اس نوع کے ہیں کہ ان کو پڑھتے وقت خواہ مخواہ دل مارے خوف کے بےچین ہوجاتا ہے ، اور طبیعت میں بےکلی سی محسوس ہونے لگتی ہے گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعی قیامت آپہنچی ، یا چند لمحوں میں آیا چاہتی ہے ، حدیث میں آیا ہے ، حضور (ﷺ) نے جب یہ آیتیں صحابہ کو سنائیں تو وہ اس درجہ متاثر ہوئے کہ رات بھر روتے رہے ، اور دوسرے دن تک کچھ نہ کھایا نہ پیا اسی طرح دن بھر قیامت کے خوف سے لرزاں رہے ۔ حل لغات: تَذْهَلُ: ذھول سے ہے یعنی بھول جانا ، مقصد یہ ہے کہ مصیبت اور خوف کی زیادتی سے تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی وہ اپنے سامنے اپنے بچوں کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گی ، مگر خوف وہراس کے غلبہ کی وجہ سے ان کی جانب متوجہ نہ ہو سکیں گی۔