تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ ہمارے پیغمبر ہیں، جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے (یعنی اگرچہ پیغمبری کے لحاظ سے سب کا درجہ یکساں ہے لیکن اپنی اپنی خصوصیتوں کے لحاظ سے مختلف درجے رکھتے ہیں) ان میں کچھ تو ایسے تھے جن سے اللہ نے کلام کیا (یعنی ان پر اپنی کتاب نازل کی) بعض ایسے تھے جن کے درجے (ان کے وقتوں اور حالتوں کے مطابق دوسری باتوں میں) بلند کیے گئے اور (تم سے پہلے) مریم کے بیٹے عسی کو (ہدایت کی) روشن دلیلیں عطا فرمائی، اور روح القدس (یعنی وحی) تائید سے سرفراز کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو (اس کی قدرت سے یہ بات باہر نہ تھی کہ) جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد پیدا ہوئے، وہ ہدایت کی روشن دلیلیں پالینے کے بعد پھر (اختلاف و نزاع میں نہ پر تے اور) آپس میں نہ لڑتے۔ لیکن (تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ انسان کو کسی ایک حالت پر مجبور نہ کردے۔ ہر طرح کے ارادہ و فعل کی استعداد دے دے۔ پس) پیغمبروں کے بعد لوگ آپس میں مخالف ہوگئے کچھ لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی۔ کچھ لوگوں نے کفر کا شیوہ پسند کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے (یعنی ان سے لڑائی کی قوت سلب کرلیتا) لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (تم اس کے کاموں کی حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتے)
انبیاء کے درجے : (ف ١) نفس نبوت میں تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول (علیہ السلام) برابر کے شریک وسہیم ہیں ، مگر حالات واستعداد کے ماتحت سب ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وصف خلت میں ممتاز ہیں ، (آیت) ” اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف مکاملہ سے سرفراز کیا گیا ، (آیت) ” وکلم اللہ موسیٰ تکلیما “۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو روح القدس کی تخصیص سے نوازا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا ، مگر ان کے مراتب بھی اعلی بلند ہیں (آیت) ” ورفع بعضھم درجت “۔ مقصد یہ ہے کہ سب خداے فرستادہ ہیں ، سب اس کے پیارے ہیں سب کو درجہ محبوبیت پر فائز کیا گیا ہے ، اس لئے ان کے نام نزاع اور جنگ جائز نہیں یہی مقصد ہے اس حدیث کا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” لا تفصلوا بین الانبیآئ“ یعنی انبیاء کے درمیان مفاصلہ پیدا نہ کرو ، روح القدس سے یا تو جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں ، حضرت حسان (رض) کا شعر ہے ۔ وجبریل رسول اللہ فینا ورح القدس لیس لہ کفاء : جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور روح القدس ہماری تائید کے لئے میں موجود ہیں ، ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے ، اور یا روح سے مراد انجیل ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر روحانی اصلاح سے تعرض کیا گیا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم کو بھی روح اللہ کا خطاب دیا گیا ہے ارشاد ہے (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ اقدس کے معنی مقدس کے ہوں گے ، یعنی ایسی کتاب جو تزکیہ وتقدیس کے لئے نازل کی گئی ہو ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ تمام انبیاء احترام کرو ، سب میں فضائل ومزا یا کا معتد بہ حصہ ہے ۔ تمام انبیاء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ کیا ہے ؟ بس یہ سمجھ لو ، ان تمام خوبیوں کا جو فردا فردا تمام رسل میں پائی جاتی ہیں ، اگر کسی ایک انسان میں جمع کردی جائیں تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری : اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے پیغمبر آئے وہ محدود وقت اور متعین گروہوں کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے ، مگر آپ کی نبوت زمان وقوم کی حدود سے باہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر قوم اور ہر زمانے کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل غیر محدود اور لاتحصی ہیں ۔ (ف ٢) ان آیات میں بتایا کہ باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت ودرجات کے بعد لوگ منکر رہے ۔ یہ اس لئے کلیۃ کفر کا اٹھ جانا اللہ کی مرضی پرموقوف ہے ۔ وہ چاہے تو دنیا میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے ، مگر وہ کسی شخص کو ایمان پر مجبور نہیں کرتا ، ہر شخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے ، اس لئے کفر ومخالفت کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔