سورة الأنبياء - آیت 101

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مگر) جن لوگوں کے لیے ہم نے پہلے سے بھلائی کا حکم دے دیا تو وہ یقینا دوزخ سے دور کردیے گئے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اہل جنت کو دوزخ کو اذیتوں کا کھٹکا نہیں : (ف ١) جنت اور دوزخ اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضگی کے دو مقام ہیں ، جو لوگ مشرک ہیں ، جنہوں نے حق پرستی کے قعر کو چھوڑ کر شرک پرستی کو نشیمن بنایا ہے ، وہ اللہ کی ناراضگی اور ناخوشی کے مہبط ہیں ، اس لئے ان کا مقام بھی وہ ہے جہاں سے غیض وغضب کے شعلے بھڑکتے ہیں ، اور جن کے مقدر میں نیکی ہے ، اور نصیب میں اللہ کی توحید ، وہ رضا الہی کا موجب ہیں ، اور ان کا مقام بھی وہ سرور آفرین ہے کہ وہاں جہنم کے ہولناک شعلوں کی آواز تک نہیں پہنچے گی ، اور چونکہ دنیا میں انہوں نے ایثار وقربانی سے کام لیا تھا ، اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے ان تمام لذتوں اور آسائشوں کو خیر باد کہا تھا ، اس لئے یہاں ان کو ہر قسم کی لذتیں عطا کی جائیں گی ، اور روح وجسم کی تمام مسرتیں ان کے حصہ میں آئیں گی اور وہ دائمی وابدی ہو نگی ، کوئی خوف وگھبراہٹ ان کے نزدیک نہیں آئے گا ، حتی کہ نفخہ ثانیہ کے بعد حساب ومحاسبہ کے ڈر سے بھی وہ بالکل بےخطر ہوں گے ، فرشتے خوشخبریوں کے تحائف لے کر ان کا استقبال کریں گے ، اور ان کو بتائیں گے کہ اللہ کے نزدیک ان کا مقام کس درجہ بلند ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نجات کے صحیح معنوں میں مستحق ہیں ، اور یہ غلط ہے کہ ہر مسلمان خواہی نہ خواہی جہنم کی اذیتوں کو محسوس کرے گا ، یہاں واضح طور پر بتلا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے کام نجات مقدرات میں سے ہے اور وہ جہنم کی خوفناک اذیتوں سے قطعی محفوظ رہیں گے ۔