سورة البقرة - آیت 251

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

چنانچہ (ایسا ہی ہوا) انہوں نے حکم الٰہی سے اپنے دشمنوں کو ہزیمت دی اور داود کے ہاتھ سے جالوت مارا گیا۔ پھر اللہ نے داود کو بادشاہی اور حکمت سے سرفراز کیا اور (حکمرانی و دانشوری کی باتو میں سے) جو کچھ سکھلانا تھا سکھلا دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ ایسا نہ کرتا کہ انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کو راہ سے ہٹاتا رہتا تو دنیا خراب ہوجاتی (اور امن و عدالت کا نام و نشان باقی نہ رہتا) لیکن اللہ دنیا کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے (اور یہ اس کا فضل ہے کہ کوئی ایک گروہ سدا ایک ہی حالت میں نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ ہمیشہ منازعت اور مدافعت جاری رہتی ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جہاد کیوں ضروری ہے ؟ (ف ١) قرآن حکیم نے جہاد پر بڑا زور دیا ہے اور یہ اس لئے کہ اگر ظالم کے خلاف جنگ نہ کی جائے ، سرکش کی زیادیتوں کو نہ روکا جائے مظلوم کی حمایت نہ کی جائے اور ہر متمرد وفرعون کو موقع دیا جائے کہ وہ جس طرح چاہے ، اپنے ملوکیت پر ستانہ اغراض پورے کرلے تو پھر عدل وانصاف کا قیام ناممکن ہوجائے گا دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، اور اللہ کی وسیع وعریض زمین پر کوئی عافیت کی جگہ نہیں رہے گی ۔