وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
اور (دیکھو) ہم نے (سمندر کی) تند ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی ہی برکت رکھ دی ہے (یعنی فلسطین اور شام کے رخ پر جہاں بحر احمر اور بحر متوسط سے دور دور کے جہاز آتے تھے) اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں۔
(ف ١) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا مستخر کی ، اس کے معنی یہ ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) فضا اور جو سے (محدود مقام تک) حسب منشاء استفادہ کرلیتے تھے ، اور ان کو اس پر ضبط اور کنٹرول حاصل تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کے پاس ایک تخت تھا ، جو ہوا میں اڑتا تھا ، اور شام سے یمن اور یمن سے شام تک اس کی پرواز ہوتی تھی ، تو کیا یہ تسخیر طیاروں کی صورت میں تھی ؟ واضح طور پر اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ، مگر متبادر معنے جو سمجھ میں آتے ہیں ، وہ یہی ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس طیارہ کی قسم کی کوئی چیز تھی ، اور وہ ان کی اپنی ایجاد تھی جس کی وجہ سے وہ ہواؤں میں اڑتے پھرتے تھے ۔ بات یہ ہے کہ گو آج کل کا زمانہ ایجادات واختراعات کے باب میں بہت آگے نکل گیا ہے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ حضرت انسان سے پہلی دفعہ اس حد تک ترقی کی ہو ، چنانچہ اثری تحقیقات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بارہا اس محفل دنیا کو آراستہ کیا گیا ہے ، اور عقل وحکمت کی کارفرمائیوں سے حیرت زا اور عجیب تر بنایا گیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ درمیان میں حوادث ارضی وسماوی نے ان ترقی کے نشانوں کو مٹا دیا ہو ۔ اس لئے اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں طیاروں کی قسم کوئی چیز پائی جائے تو اس میں کوئی تاریخی استحالہ لازم نہیں آتا ۔