سورة البقرة - آیت 250

وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر جب وہ میدان جنگ میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا۔ "خدایا (تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تھوڑے ہیں اور مقابلہ ان سے ہے جو طاقتور ہیں اور بہت ہیں۔ پس) ہم (صبر و ثبات کے پیاسوں) پر صبر (کے جام) انڈیل دے (کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں) اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے (کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹھیں) اور پھر (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر فتح مند ہوجائیں

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اللہ سے طلب اعانت : (ف2) اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ صرف مادی سازوسامان پر بھروسہ درست نہیں ، اللہ تعالیٰ کی اعانت خاص کا بھی متوقع رہنا چاہئے ، اس لئے کہ حالات کی تبدیلی اسی کے اختیار میں ہے ، وہ چاہے تو ابرہہ کے لشکر جرار کو چھوٹی چھوٹی چڑیوں سے غارت کر دے اور غیب سے کچھ سامان پیدا کر دے جس کا کوئی مداوا نہ ہو سکے ۔ مومن و کافر کی ذہنیت میں یہی عظیم فرق ہے کافر ظاہری آلات حیات کو دیکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے اور کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں رکھتا ، مگر تمام ممکن تیاریوں کے بعد طالب نصرت رہتا ہے ۔ وہ ہر دم افراغ صبر اور ثابت قدمی کی دعائیں کرتا رہتا ہے اور جب ان مختلف ذہنیت رکھنے والوں میں تصادم ہوگا ، فتح انہیں لوگوں کی ہوگی جن کا نصب العین بلند ہے اور جن کی ہمتوں کے ساتھ تائید ایزدی بھی کار فرما ہے ، اس لئے جب بھی طالوت کے لشکر کی جالوت کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی تو فتح ونصرت انہیں کے حصہ میں آئی جو خدا کے فرمانبردار تھے اور اس طرح لشکر طالوت کے سامنے جالوت مقتول ہوا جو بہت شان وشوکت کا سالار عسکر تھا ۔ اس قصے میں جتنے نام آتے ہیں ، کوئی ضروری نہیں کہ بائیبل ان سے متفق ہو ، اس لئے کہ قرآن حکیم بجائے خود اقوام سابقہ کی تاریخ ہے جس پر اس زمانے کے اہل کتاب نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔