سورة الأنبياء - آیت 40

بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلکہ وہ گھڑی تو ان پر اچانک آموجود ہوگی اور انہیں مبہوت کردے گی۔ پھر نہ تو اس وقت کو پھیردے سکیں گے اور نہ ہی مہلت ہی پائیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) عذاب کے باب میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ مجرموں کو ابتدا میں ڈھیل دی جاتی ہے مگر جب وہ حد مقرر سے آگے بڑھ جاتے ہیں ، اس وقت اللہ کا عذاب اچانک آجاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس عذاب سے بچا نہیں سکتی ، مگر بےوقوف لوگ اس ڈھیل کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال حسنہ کا نتیجہ ہے جو دنیا میں نازونعمت کے سارے سامان ہمیں میسر ہیں ، ورنہ ایک لمحہ بھی ہم دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ مکے والے بار بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے ، وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت حکمت اور قدرت والی ہے ، جسے جب چاہے ، اپنے مصالح کے ماتحت گرفتار کرلے پھر کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے ۔